حکومت نے اِس مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کےلیے سی بی آئی کو ہدایت دے دی ہے۔وزیرِ دفاع اے کے اینٹونی نے بدھ کے روز کہا کہ سی بی آئی سے جلد از جلد رپورٹ دینے کو کہا گیا ہے
اِن دِنوں، بھارتی وفاق کی اتحادی حکومت کو ایک اور اسکینڈل کا سامنا ہے۔ یہ اسکینڈل ہے بھارتی فضائیہ کے لیے ’آگسٹا ویسٹ لینڈ‘ ہیلی کاپٹروں کی خریداری کا۔
فضائیہ نےانتہائی اہم شخصیات کو لانے لےجانے کے لیے اطالوی کمپنی فن مکینا سے 12ہیلی کاپٹرخریدے تھے۔ یہ سودا 3546کروڑ روپےمیں طے ہوا تھا اور اطالوی تفتیش کاروں کی رپورٹ کےمطابق، اِس سودے کے لیے مبینہ طور پر ایئر چیف مارشل ایس پی تیاگی کو، جو کہ 2004ء سے 2007ء کے دوران فضائیہ کے سربراہ تھے، رشوت دی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، تیاگی نے ٹینڈروں کےضوابط میں تبدیلی کےعوض رشوت لی تھی۔
دہلی کے ایک انگریزی اخبار میں اِس اسکینڈل کے انکشاف کے بعد حزب اختلاف نے حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے سوال کیا ہے کہ رشوت جسے دی گئی اُس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ترجمان، روی شنکر پرشاد نے وزیر اعظم من موہن سنگھ اور کانگریس صدر سونیا گاندھی کو بھی جوابدہ قرار دیا ہے اور پوچھا ہے کہ چونکہ کمپنی اٹلی کی تھی، کیا اُسی وجہ سے اُس کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی؟
حکومت نے اِس مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کےلیے سی بی آئی کو ہدایت دے دی ہے۔ وزیرِ دفاع اے کے اینٹونی نے بدھ کے روز کہا کہ سی بی آئی سے جلد از جلد رپورٹ دینے کو کہا گیا ہے۔
اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ کسی ملکی یا غیر ملکی شخص نے رشوت لی یا وہ بدعنوانی میں ملوث رہا ہے تو اُسے کسی بھی قیمت پر بخشا نہیں جائے گا۔
اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ دفاعی سودوں میں بدعنوانی برداشت نہیں کی جائے گی۔
وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی کہا ہے کہ قانون کےمطابق کارروائی ہوگی، حزب اختلاف کے مطالبے پر نہیں۔
اِس معاملے میں اطالوی کمپنی کے چیف اگزیکٹو افسر کو وہاں کی پولیس نے منگل کے روز روم سے گرفتار کر لیا ہے۔ اِس پر بی جے پی نےسوال اٹھایا ہے کہ رشوت دینے والا گرفتار کیا جاچکا ہے، تو یہاں کی حکومت رشوت لینے والے کو کیوں بچا رہی ہے۔
بی جے پی نے اِس معاملے کو دوسرا ’بوفورز اسکینڈل‘ قرار دیا ہے۔
ادھر فضائیہ کے سابق سربراہ تیاگی نے رشوت لینے کےالزام کو سراسر جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس الزام کو سن کر صدمے اور سکتے میں ہیں۔
اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ اس معاملے کی جانچ ہونی چاہیئے اور وہ کسی بھی قسم کی تحقیقات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ 2007ء میں سبک دوش ہوگئے تھے، جب کہ یہ معاملہ 2010ء کا ہے۔
فضائیہ نےانتہائی اہم شخصیات کو لانے لےجانے کے لیے اطالوی کمپنی فن مکینا سے 12ہیلی کاپٹرخریدے تھے۔ یہ سودا 3546کروڑ روپےمیں طے ہوا تھا اور اطالوی تفتیش کاروں کی رپورٹ کےمطابق، اِس سودے کے لیے مبینہ طور پر ایئر چیف مارشل ایس پی تیاگی کو، جو کہ 2004ء سے 2007ء کے دوران فضائیہ کے سربراہ تھے، رشوت دی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، تیاگی نے ٹینڈروں کےضوابط میں تبدیلی کےعوض رشوت لی تھی۔
دہلی کے ایک انگریزی اخبار میں اِس اسکینڈل کے انکشاف کے بعد حزب اختلاف نے حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے سوال کیا ہے کہ رشوت جسے دی گئی اُس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ترجمان، روی شنکر پرشاد نے وزیر اعظم من موہن سنگھ اور کانگریس صدر سونیا گاندھی کو بھی جوابدہ قرار دیا ہے اور پوچھا ہے کہ چونکہ کمپنی اٹلی کی تھی، کیا اُسی وجہ سے اُس کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی؟
حکومت نے اِس مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کےلیے سی بی آئی کو ہدایت دے دی ہے۔ وزیرِ دفاع اے کے اینٹونی نے بدھ کے روز کہا کہ سی بی آئی سے جلد از جلد رپورٹ دینے کو کہا گیا ہے۔
اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ کسی ملکی یا غیر ملکی شخص نے رشوت لی یا وہ بدعنوانی میں ملوث رہا ہے تو اُسے کسی بھی قیمت پر بخشا نہیں جائے گا۔
اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ دفاعی سودوں میں بدعنوانی برداشت نہیں کی جائے گی۔
وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی کہا ہے کہ قانون کےمطابق کارروائی ہوگی، حزب اختلاف کے مطالبے پر نہیں۔
اِس معاملے میں اطالوی کمپنی کے چیف اگزیکٹو افسر کو وہاں کی پولیس نے منگل کے روز روم سے گرفتار کر لیا ہے۔ اِس پر بی جے پی نےسوال اٹھایا ہے کہ رشوت دینے والا گرفتار کیا جاچکا ہے، تو یہاں کی حکومت رشوت لینے والے کو کیوں بچا رہی ہے۔
بی جے پی نے اِس معاملے کو دوسرا ’بوفورز اسکینڈل‘ قرار دیا ہے۔
ادھر فضائیہ کے سابق سربراہ تیاگی نے رشوت لینے کےالزام کو سراسر جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس الزام کو سن کر صدمے اور سکتے میں ہیں۔
اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ اس معاملے کی جانچ ہونی چاہیئے اور وہ کسی بھی قسم کی تحقیقات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ 2007ء میں سبک دوش ہوگئے تھے، جب کہ یہ معاملہ 2010ء کا ہے۔