چین اور بھارت کے درمیان جیو پولیٹکل جنگ اور بھارت کی نئی حکمت عملی

فائل فوٹو

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ بھارت اور امریکہ ایک دوسرے کے اور قریب آ جائیں گے، جب کہ بعض ایسے ممالک جن کے دونوں ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں، وہ کشمکش کا شکار رہیں گے۔

لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپ کے بعد دونوں ایٹمی ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں تو دوسری طرف سفارتی سطح پر دونوں ملک تنازع کو حل کرنے کے لیے آپس میں رابطے میں ہیں۔

نئی دہلی میں اوورسیز ریسرچ فاونڈیشن کے تجزیہ کار ہرش پنت کہتے ہیں کہ فوجی یا سفارتی طور پر اس مسئلے کے حل یا حل یہ ہونے کے علاوہ اس کا تیسرا پہلو بھی اہم ہے۔ کیوں کہ اس تناظر میں بھارت کو چین مخالف ممالک کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔

جنوبی ایشیا کے پڑوسی ملکوں کا بھارت کے ساتھ تعلقات کا انحصار اس پر ہو گا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا بحران پر کس طرح کا رد عمل ہو گا۔ فی الحال دونوں ملکوں نے کہا ہے کہ وہ سرحدی کشیدگی کو کم کرنے خواہاں ہیں۔

چین اور بھارت کے درمیان 3488 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ جس کی حد بندی لائن آف ایکچول کنٹرول یا ایل اے سی کے معاہدے تحت ہوئی ہے۔ تازہ ترین تنازع گلوان وادی میں شروع ہوا۔ اور دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان دو بدو لڑائی میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے۔

اس بحران کے پیدا ہونے کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ بھارت کو مغرب کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہیے۔

اخبار ہندوستان ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ بھارت کو اپنی جیو پولیٹیکل پالیسی پر نظرثانی کرنا ہو گی اور اسے امریکہ کے ساتھ اپنی شراکت داری کو دو گنا کرنا چاہیے۔ تاہم ہرش پنت جیسے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کو احتیاط کے ساتھ قدم بڑھانا چاہیے۔ چین کی مخالفت میں اس حد تک نہ جایا جائے کہ چین بھارت کے لیے مستقل مسئلے کھڑے کرتا رہے۔

بھارت نے حال ہی میں آسٹریلیا سے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت دونوں ملک ایک دوسرے کے فوجی اڈے استعمال کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اب شاید بھارت کواڈ نامی سیکیورٹی ڈائیلاگ میں شامل ہونے سے گریز نہ کرے، جس میں امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں۔ اس کی تجدید 2017 میں ہوئی تھی۔

دوسری طرف آنے والے ہفتوں میں بھارت اپنے پڑوسی ملک نیپال اور سری لنکا سے بھی تعلقات پر بھی توجہ دے گا۔ چین ان ملکوں میں سڑکیں اور بندرگاہیں تعمیر کر رہا ہے۔

جواہر لعل یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعات کے شعبے کے پروفیسر ہیپیمون جیکب کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں چین اور بھارت کے درمیان مسابقت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ انہوں نے اس سلسلے میں نیپال کے اس نقشے کا حوالہ دیا، جس میں بعض ایسے حصوں کو شامل کیا گیا ہے، جن کو روایتی طور بھارت اپنا حصہ سمجھتا ہے۔

تجزیہ کار رانادے نے انتباہ کیا ہے کہ اگر ہم نے چین کو موثر جواب نہ دیا تو پاکستان، نیپال اور سری لنکا ہم سے دوسری طرح پیش آئیں گے، کیوںکہ ان کے سامنے چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہوں گے۔ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لیں گے۔

اس کے علاوہ بھارت کے سامنے اقتصادی پہلو بھی ہے۔ بھارت ایک بڑی منڈی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 90 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اب بھارت اپنے ملک میں چینی سرمایہ کاری کے بارے محتاط رویہ اختیار کرے گا۔

اپریل میں بھارت نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت چینی کمپنیوں کو بھارت میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے سرکاری اجازت حاصل کرنا ہو گی۔ اس کے باوجود تجزیہ کاروں نے انتباہ کیا ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی مسابقت میں بھارت کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے، کیوںکہ چین کی معیشت بھارت سے زیادہ بڑی اور مضبوط ہے۔

اگلے ہفتوں اور مہینوں میں فوجی، سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے بھارت کو اپنی سابقہ عشروں پرانی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ سٹریٹیجک خود مختاری کی پالیسی سے کام نہیں چلے گا۔ کیوں کہ ایک طرف اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے تو دوسری طرف چین کے ایشیا میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو بھی روکنا ہے۔