بھارت نے ملک بھر میں الیکٹرانک سگریٹ (ای سگریٹ) کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ اس کے استعمال اور فروخت کو قابل جرم فعل قرار دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ نے بدھ کو ای سگریٹ پر پابندی کی منظوری دی جب کہ حکومت نے اس کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا ہے۔
ای سگریٹ کی تیاری، اس کی فروخت، درآمد، برآمد اور اس کی تشہیر پر مکمل پابندی ہوگی اور خلاف ورزی کی صورت میں ایک سے تین سال تک قید کی سزا اور ایک سے پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جاسکے گا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بھارت میں ای سگریٹ پر پابندی کی وجہ شہریوں کی صحت کو لاحق خطرات اور اس میں تیزی سے ہونے والے اضافے کو قرار دیا جاتا ہے۔
بھارت کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ نوجوانوں اور بچوں میں ای سگریٹ کے استعمال کی وبا عام ہے جبکہ یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے تاہم اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اس پابندی میں ای سگریٹ کی پیداوار، درآمد اور تشہیر بھی شامل ہے۔
بھارت میں پابندی کی خلاف ورزی کی صورت میں تین سال قید کی سزا رکھی گئی ہے۔
رپورٹس کے مطابق بھارت میں 10 کروڑ 60 لاکھ افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ یہ تعداد دنیا میں چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے یہی وجہ ہے کہ جول لیبزاور فلپ مورس ای سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کے لیے بھارت ایک منافع بخش مارکیٹ بنا ہوا ہے۔
اس پابندی کا اعلان وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے ایک نیوز کانفرنس میں کیا تھا جہاں انہوں نے میڈیا کو کئی طرح کی مصنوعات دکھائیں۔ جس میں جول واپنگ ڈیوائس بھی شامل تھی جو یو ایس بی فلیش ڈرائیو سے ملتی جلتی ہے۔
جول لیبز نے اپنا ای سگریٹ بھارت میں لانچ کرنے کا ارادہ کیا تھا اور حالیہ مہینوں میں متعدد سینئر ایگزیکیٹوز کی خدمات حاصل کی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق فلپ مورس کا بھی بھارت میں واپنگ ڈیوائس متعارف کرانے کا ارادہ ہے تاہم بھارت میں قائم جول لیبز کے ترجمان نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا جبکہ فلپ مورس نے تبصرہ کرنے سے متعلق بھیجے گئے مراسلے کا جواب نہیں دیا۔
صحت کا تنازع
یورو مونیٹر انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں بھارت کی ویپنگ مصنوعات کی منڈی کا حجم پانچ کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھا۔
پابندی سے پہلے تحقیقی گروپ نے اندازہ لگایا تھا کہ 2022 تک بھارتی مارکیٹ میں تقریباً 60 فیصد اضافہ ہوگا۔
ای سگریٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ واپنگ میں عام طور پر نکوٹین پر مشتمل رقیق مادے کو گرم کرنے سے بننے والے بخارات کو سانس کے ذریعے اندر لینا پڑتا ہے جو تمباکو نوشی سے کہیں کم نقصان دہ ہے۔
بھارت میں تمباکو سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے ہر سال نو لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔