عمران خان کا آف شور کمپنی بنانے کا اعتراف

عمران خان نے کہا کہ اُنھوں نے آف شور کمپنی بنا کر کوئی غیر قانونی چیز نہیں کی۔ ’’میں وہ سارا پیسہ پاکستان واپس لے کر آیا، اور میں نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ میرا (یہاں برطانیہ میں) فلیٹ نہیں تھا۔‘‘

پاکستان میں حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ اُنھوں نے برطانیہ میں ایک فلیٹ خریدنے کے لیے 1983 میں ایک ’آف شور کمپنی‘ بنائی تھی۔

تاہم اُنھوں نے کہا کہ ایسا کرنا اُن کا جائز حق تھا۔

واضح رہے کہ پاناما لیکس میں اس انکشاف کے بعد کہ وزیراعظم نواز شریف کے دو بیٹوں حسین اور حسن نواز کے علاوہ بیٹی مریم نواز کی بھی ’آف شور کمپنیاں‘ ہیں، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ناصرف وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے آ رہے ہیں بلکہ احتساب کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

جمعہ کو لندن میں صحافیوں کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ اُنھوں نے آف شور کمپنی بنا کر کوئی غیر قانونی چیز نہیں کی۔

’’میں وہ سارا پیسہ پاکستان واپس لے کر آیا، اور میں نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ میرا (یہاں برطانیہ میں) فلیٹ نہیں تھا۔‘‘

عمران خان کا موقف تھا کہ وہ برطانیہ کے شہری نہیں ’’آف شور کمپنی بنانا میرا جائزہ حق تھا تاکہ مزید ٹیکس سے بچا جا سکے‘‘۔

تحریک انصاف کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے لندن کا فلیٹ فروخت کر کے پاکستان میں گھر بنایا اور عمران خان کے بقول 2012ء میں جب اُن سے بنی گالہ کے گھر کے بارے میں سوال ہوئے تو اُنھوں نے برطانیہ میں فلیٹ کی فروخت کی رسید دکھائی اور بتایا کہ اُس پیسے سے بنی گالہ میں گھر بنا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین کے اس بیان پر کہ اُنھوں نے آف شور کمپنی بنائی تھی، پاکستان میں نا صرف ذرائع ابلاغ میں نمایاں طور پر اس کی کوریج رہی بلکہ یہ معاملہ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس یعنی سوشل میڈیا پر بھی گرم رہا۔

وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر ایک بیان میں عمران خان کو آف شور کمپنیوں کا بانی قرار دیا۔

ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ عمران خان حقائق سے پاکستانیوں کا آگاہ کریں۔

’’آپ کو بتانا پڑے گا، اپنے اُن تمام لوگوں جنہوں نے آپ کو ووٹ دیا کہ آپ نے ٹیکس کیوں نہیں دیا اور آف شور کمپنی کو پوشیدہ کیوں رکھا۔‘‘

واضح رہے کہ پانام کی ایک لافرم موساک فونسیکا کی منظر عام پر آنے والی معلومات کے مطابق لگ بھگ چھ سو پاکستانی شہری ایسے ہیں جن کی ’آف شور کمپنیاں‘ ہیں۔

ان شخصیات میں وزیراعظم نواز شریف کے دو بیٹوں اور بیٹی کا نام بھی شامل تھا، جس کے بعد ملک میں اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر تحریک انصاف نے بھرپور احتجاج کیا۔

جن افراد کے نام پاناما لیکس میں سامنے اُن کے بارے میں تحقیقات کے لیے اپوزیشن کے مطالبے پر وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک کمیشن بنانے کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا۔

جمعہ کو وزیراعظم کے خط کے جواب میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان کمیشن آف انکوائری قانون کا دائرہ کار بہت محدود ہے اور اس کے تحت بنایا جانے والا کمیشن بے اخیتار ہو گا اور اس سے کوئی مفید مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ حکومت کی طرف سے تحقیقات کے لیے تجویز کردہ ضابطہ کار کے تحت کمیشن کو تحقیقات مکمل کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

مجوزہ کمیشن کی طرف سے تحقیقاتکے لیے حکومت اور حزب مخالف نے اپنے اپنے ضابطہ کار تجویز کر رکھے ہیں۔ اگرچہ دونوں ہی جانب سے یہ کہا گیا کہ وہ اس معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن اس بارے میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔