’آف شور‘ کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک اثاثے اور جائیدادیں بنانے سے متعلق اپریل کے اوائل میں پاناما کی ایک لافرم موساک فونسیکا کی منظر عام پر آنے والی معلومات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔
جن افراد کے نام پاناما پیپرز میں آئے میں اُن میں دنیا بھر کے 12 موجودہ یا سابق سیاسی قائدین بھی شامل ہیں، ان میں سے آئس لینڈ کے وزیراعظم کو مستعفی ہونا پڑا جب کہ لندن میں برطانیہ کے وزیراعظم کے خلاف مظاہرے ہوئے۔
پاناما پیپرز میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے دو بیٹوں حسین اور حسن نواز کے علاوہ بیٹی مریم نواز کے نام سامنے آنے کے بعد پاکستان میں حزب مخالف کی جماعتوں نے وزیراعظم کو آڑے ہاتھوں لیا۔
احتجاج ہوئے اور وزیراعظم سے استعفی کے مطالبات بھی۔
خود وزیراعظم کو دو مرتبہ اس معاملے پر ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے قوم سے خطاب کرنا پڑا اور اُنھوں نے حزب مخالف کے مطالبے کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات سپریم کورٹ کی نگرانی میں کرانے کے لیے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا۔
اپریل میں 200 پاکستانیوں کے نام پاناما پیپرز میں سامنے آئے تھے اور اب مزید درجنوں پاکستانی شہریوں کے ناموں کا انکشاف کیا گیا جن میں اکثریت کاروباری برداری سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔
پاناما دستاویزات کا انکشاف کرنے والی تنظیم ’انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویشٹیگیٹو جرنلسٹس‘ (آئی سی آئی جے) سے وابستہ لگ بھگ چار سو صحافیوں نے ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد دستاویزات کا ایک سال تک باریک بینی سے جائزہ لیا۔دنیا کے 80 ممالک کے جن صحافیوں نے ’آئی سی آئی جے‘ کے اس کام میں حصہ لیا اُن میں پاکستان سے صحافی عمر چیمہ شامل ہیں۔
پاکستان میں حزب مخالف کی بیشتر جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات کا عمل جلد شروع کیا جائے۔
حزب مخالف کی طرف سے مجوزہ کمیشن کی تحقیقات کے لیے جو ضابطہ کار مرتب کیا گیا، حکومت نے اُسے آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد وزیراعظم کے گرد گھیرا تنگ کر کے حکومت کو مفلوج کرنا ہے۔
ایسے میں کیا تحقیقات ہوں سکیں گی یا یہ معاملہ دب جائے گا۔
حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ حکومت اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرانے کی خواہاں ہے، لیکن اُن کے بقول اس عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں حزب مخالف کی جماعتیں مثبت کردار ادا کریں۔
پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلے گا، یہ کہنا تو قبل از وقت ہے لیکن ان انکشافات کے بعد پاکستان کی موجودہ حکومت حزب مخالف کی تنقید کے بعد بظاہر دباؤ میں ہے۔