’لانگ مارچ اکتوبر میں ہوگا، اعظم سواتی پر تشدد کا معاملہ عالمی فورمز پر اٹھائیں گے’

فائل فوٹو

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی جماعت کے سینیٹر اعظم خان سواتی پر مبینہ تشدد کے معاملے پر عالمی اداروں سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد ایک بار پھر انہوں نے رواں ماہ ہی حکومت مخالف لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے کا عندیہ دیا ہے ۔

اتوار کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں آٹھ میں سے چھ پر پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں عمران خان کا کہنا تھا کہ اعظم سواتی کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔ اگر انہوں نے جذباتی ہو کر کوئی بات کی تھی تو اس پر قانون کے مطابق ایکشن لینا چاہیے تھا۔ ایک 75 برس کے سینیٹر پر ان کے پوتے پوتیوں کے سامنے تشدد کیا گیا، جس کی خبریں بین الاقوامی اداروں نے بھی شائع کیں۔ اگر انہوں نے آرمی چیف پر تنقید کی تھی تو کیا اس پر اس طرح کا طرزِ عمل اختیار کیا جانا چاہیے تھا۔

واضح رہے کہ تحریکِ انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کو چار روز قبل اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیا تھا۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے اعظم خان سواتی کے خلاف سائبرکرائم کے متنازع قانون کے تحت درج کردہ شکایت میں پاکستان کی فوج اور اس کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ’انتہائی نفرت انگیز اوردھمکی آمیز پیغام‘ٹوئٹ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

عمران خان نے پریس کانفرنس میں اعظم خان سواتی کی گرفتاری اور تشدد سے متعلق مزید کہا کہ ایک 75 برس کے شخص کو تشدد کا نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کریں گے جب کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے اجلاس بلائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں سے رجوع کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی پر تشدد کے معاملے سے سیاسی اور شہری حقوق کے بین الاقوامی کونوینٹ پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے والی جنیوا کی ہیومن رائٹ کمیٹی آن ٹارچر، تشدد پر اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مقرر کردہ نمائندے، یورپی یونین کے نمائندہ برائے انسانی حقوق اور بین الاقوامی پارلیمنٹری یونین کو تحریری طور پر آگاہ کیا جائے گا۔

اتوار کو ضمنی انتخابات میں کامیابی پر عمران خان نے کہا کہ عوام کو معلوم تھا کہ تحریکِ انصاف اسمبلی میں نہیں جائے گی اس کے باوجود انہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ یہ الیکشن نہیں بلکہ ریفرنڈم تھا جس کا مطلب ہے کہ قوم نئے انتخابات چاہتی ہے۔ قوم نے موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں کو مسترد کر دیا ہے۔

SEE ALSO: سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کا فیصلہ کیا جس کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے: اسحاق ڈار

واضح رہے کہ اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی آٹھ اور پنجاب اسمبلی کی تین نشستوں میں سے بیشتر پر تحریکِ انصاف کو کامیابی ملی ہے۔

قومی اسمبلی کی آٹھ میں سے سات نشستوں پر عمران خان خود بطور امیدوار کھڑے ہوئے تھے۔ ملتان میں قومی اسمبلی کی نشست پر تحریکِ انصاف کی خاتون امیدوار کو پیپلز پارٹی کے امیدوار نے شکست دی۔ عمران خان نے کراچی کورنگی، مردان، پشاور، چارسدہ، ننکانہ صاحب اور فیصل آباد سے کامیابی حاصل کی جب کہ کراچی ملیر سے انہیں پیپلز پارٹی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

عمران خان نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ کراچی کے ملیر کے حلقے میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ پیپلز پارٹی نے کراچی میں کھل کر دھاندلی کی اور الزام عائد کیا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ دھاندلی کرتی ہے۔

واضح رہے کہ سندھ کے الیکشن کمشنر اعجاز چوہان نے عمران خان کے بیان پر کہا کہ کراچی میں کورنگی اور ملیر کے انتخابی حلقوں میں صاف و شفاف انتخابات ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ عمران خان کے تمام الزامات کی تردید اور مذمت کرتے ہیں۔

SEE ALSO: ضمنی انتخابات: پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی چھ اور پیپلز پارٹی دو نشستوں پر کامیاب

ضمنی الیکشن میں کامیابی پر عمران خان نے کہا کہ اس ملک کی ضرورت اس وقت صاف شفاف انتخابات ہیں۔ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا اس وقت تک معیشت درست نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت معیشت ٹھیک کرنے کے لیے ایک مجرم اسحاق ڈار کو بطور وزیرِ خزانہ لے کر آئی ہےجس نے خود تسلیم کیا تھا کہ وہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔

انہوں نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ اگر انتخابات کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، تو رواں ماہ ہی اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے پانچ ماہ میں اس قدر مہنگائی کر دی ہے جتنی گزشتہ کئی دہائیوں میں نہیں ہوئی۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ نواز شریف الیکشن سے ڈرے ہوئے ہیں۔ وہ خوف زدہ ہیں کہ تمام جماعتیں مل کر نہیں جیت سکیں اور عام انتخابات میں وہ ہار جائیں گے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ تحریکِ انصاف کی حمایت میں جو لہر ہے وہ کم ہو جائے گی۔ نواز شریف اور زرداری کچھ بھی کر لیں وہ اب کبھی نہیں جیت سکتے۔ ان کا وقت ختم ہو چکا ہے۔

نئے آرمی چیف کے تقرر پر کیے گئے ایک سوال پر عمران خان نے کہا کہ اس کا اختیار نواز شریف جیسے مجرم کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مفادات ملک سے باہر ہیں اور انہوں نے فوج کے خلاف بیانات دیے ہیں۔

SEE ALSO: پاکستان نے جوہری اثاثوں سے متعلق بائیڈن کے بیان کو مسترد کر دیا

عمران خان نے مزید کہا کہ آرمی چیف کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہیے۔ آرمی چیف کسی کا آدمی نہیں ہونا چاہیے۔ موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں کو ہر ادارے اپنا فرد چاہیے ہوتا ہے جو اداروں کو کنٹرول کرے۔

حکومت پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے اداروں کو کہنا چاہتا ہوں کہ جتنی دیر موجودہ حکمران رہیں گے پاکستان تنزلی کی جانب جائے گا۔

ملکی معاشی صورتِ حال پر عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکومت ملک کو دیوالیہ ہونے کی طرف لے جا رہی ہے۔ پاکستان اگر دیوالیہ ہو گیا تو ملکی قرضوں کے بدلے جوہری پروگرام کا تقاضہ کیا جائے گا۔

عمران خان کی اس پریس کانفرنس سے قبل تحریکِ انصاف کا اجلاس ہوا تھا، جس میں ملک کی سیاسی صورتِ حال اور مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ جب سے ایک شخص کا اسلام آباد تبادلہ ہوا ہے، اس کے بعد سے تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

SEE ALSO: تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی گرفتار

عمران خان نے کسی افسر یا عہدے دار کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ یہ سب آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو خوش کرنے کے لیے کر رہا ہے لیکن آرمی چیف کو یہ سب معلوم ہی نہیں ہوگا۔ اس سے پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔

امریکہ کے صدر جوبائیڈن کے پاکستان کے حوالے سے حالیہ بیان پر سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ یہ پاکستان کے خلاف پرانا پروپیگنڈا چلتا آ رہا ہے۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان کے جوہری پروگرام کو اسلامی بم کا نام دیا جاتا تھا جب کہ بھارت کے ایٹم بم کو ہندو بم یا اسرائیل کے ہتھیاروں کو یہودیوں سے نہیں جوڑا جاتا۔ یہ پرانا پروپیگنڈا ہے۔

واضح رہے کہ جمعرات کی شب امریکہ میں ڈیمو کریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہاتھا کہ میرا خیال ہے کہ "دنیا کے سب سے خطرناک ممالک میں سے ایک پاکستان ہے، جس کے جوہری ہتھیار بے ربط ہیں۔"

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ افغانستان کے معاملے میں دوغلے کردار پر امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے بیان پر سخت جواب دیا تھا۔ البتہ ان کے بقول جب وہ امریکہ دورے پر گئے، تو ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے وزیرِ اعظم اور ان کے وفد کو بہت عزت دی تھی۔

SEE ALSO: کیا سابق وزیرِ اعظم عمران خان واقعی بے اختیار تھے؟

الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے موجودہ سربراہ سے زیادہ بد دیانت کوئی الیکشن کمشنر نہیں ہو سکتا۔ یہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ای وی ایم مشین نہیں آنے نہیں دی۔ کیوں کہ یہ دھاندلی کرنا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو کئی جگہ دیوار سے لگایا گیا ہے لیکن ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے ملک کے اداروں کو نقصان پہنچے۔

’عمران خان کا اصل مسئلہ آرمی چیف کی تعیناتی ہے‘

عمران خان کی پریس کانفرنس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عمران خان کا اصل مسئلہ آرمی چیف کی تعیناتی ہے۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ جب عمران خان کے دور میں ارکان پارلیمنٹ اور اپوزیشن کے رہنماؤں کو قید میں رکھا گیا اس وقت انسانی حقوق کا سبق کہاں تھا۔

سابق وزیرِ اعظم پر تنقید کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ عمران خان کے کہنے پر ان کے لوگ افواجِ پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلارہے ہیں اور آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازع بنا رہے ہیں۔

SEE ALSO: نئے آرمی چیف کے لیے کوئی نام فائنل نہیں، جنرل باجوہ کے فیصلے سے ابہام دور ہوگا: وزیرِ دفاع

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے منتخب وزیرِ اعظم کے طور پر ملک کے چھ آرمی چیف تعینات کیے اور عمران خان صرف ایک بار یہ فیصلہ کرنے کے لیے منتیں کر رہے ہیں۔

ضمنی الیکشن کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں تحریکِ انصاف کی مزید آٹھ نشستیں کم ہوگئی ہیں جب کہ حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 176 ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو آئینی طریقے سے نکالا گیا تھا اور اگر وہ دوبارہ حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آئینی طریقے سے اپنے حامی ارکان کی تعداد پوری کریں۔

انہوں نے، عمران خان کے اس بیان پر کہ ملک ڈیفالٹ ہونے والا ہے، کہا کہ ملک عمران خان کے چار سال کے دور میں ملک ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گیا تھا جسے موجودہ حکومت نے معاشی تباہی سے بچایا۔

ان کا کہنا ہے کہ عمران خان آج آزادیٔ اظہار کی بات کررہے ہیں جب کہ ان کے دور میں متعدد صحافیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں۔