اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتا افراد کے ایک کیس کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جس کا پیارا غائب ہو جائے اور ریاست کہے ہم میں سے کسی نے اٹھایا ہے تو شرمندگی ہوتی ہے۔ دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے اغوا یا جبری گمشدگیوں میں ان کی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
پاکستان کے نجی ٹی وی چینل 'سما نیوز' کے ایک پروگرام 'ندیم ملک لائیو' میں انٹرویو میں صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا اور جبری گمشدیوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ مطیع اللہ جان کے معاملے پر ہماری حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ اس سے ہمیں کیا فائدہ ملا اور وہ ہمیں کیا نقصان پہنچا رہے تھے کہ ہم اغوا کرتے یا کسی اور کو اغوا کریں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ مطیع اللہ جان کو کن افراد نے اغوا کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ جان کے اغوا میں کسی صورت ان کی حکومت کا ہاتھ نہیں تھا اور ان کی حکومت کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کر سکتی۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا میڈیا اس وقت دنیا کا سب سے آزاد میڈیا ہے۔ کیوں کہ ان کی حکومت پر کھل کر عام تنقید کی جاتی ہے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ کئی میڈیا ہاؤسز نے بہت زبردست کام کیا ہے اور کچھ میڈیا ہاؤسز نے مجرموں کو تحفظ پہنچایا۔ ملک کو نقصان پہنچانے والوں کی حمایت کی۔ مشکل وقت میں کچھ صحافیوں نے ملکی مفاد کے لیے کام کیا۔
واضح رہے کہ وزیرِ اعظم نے گزشتہ ماہ قطر کے نشریاتی ادارے 'الجزیرہ ٹی وی' کو انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں صحافی مطیع اللہ جان کی جبری گمشدگی سے متعلق کیس کی مکمل تفصیلات کا علم نہیں ہے۔
صحافی مطیع اللہ جان کو 21 جولائی کو اس وقت اسلام آباد سے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا جب وہ اپنی اہلیہ کو اسکول سے لینے جا رہے تھے۔ بعد میں اغوا کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں پولیس کی وردی میں ملبوس جوانوں اور ایمبولنس کو دیکھا گیا، تاہم 12 گھنٹوں کے بعد وہ رہا ہو کر واپس آ گئے تھے۔
ستمبر میں پاکستان میں لاپتا افراد کی فہرست میں مزید 34 ناموں کا اضافہ
دوسری جانب ماہِ ستمبر میں پاکستان میں لاپتا افراد کی فہرست میں مزید 34 مزید افراد کا اضافہ ہوا ہے۔
لاپتا افراد کمشن کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتا افراد کمشن نے ستمبر کے دوران لاپتا افراد سے متعلق 76 کیسز نمٹائے ہیں۔
کمشن کے اعلامیے کے مطابق 31 اگست تک کمشن کے پاس 6752 کیسز کی تحقیقات جاری تھیں۔ جب کہ ستمبر کے دوران مزید 34 نئے کیس موصول ہوئے جس سے کیسز کی مجموعی تعداد بڑھ کر 6786 ہو گئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق کمشن نے 31 اگست تک 4642 کیسز نمٹائے تھے۔ جب کہ گزشتہ ماہ ستمبر میں 76 کیسز نمٹائے گئے جس کے بعد نمٹائے جانے والے مجموعی کیسز کی تعداد 4718 ہو گئی ہے۔ لاپتا افراد کمشن کے پاس باقی کیسز کی تعداد 2068 ہے جن پر کام جاری ہے۔
ریاست کو جبری گمشدگیوں کا علم ہے، اس پر جواب دینا چاہیے: ایچ آر سی پی
اس بارے میں ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کے چیئر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ ریاست کو جبری گمشدگیوں کے حوالے سے علم ہے اور انہیں اس پر جواب دینا چاہیے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ ریاست کو علم نہیں ہے۔ مسنگ پرسنز کی زیادہ تعداد ریاستی اداروں کے پاس ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ان پر لگائے جانے والے الزامات شاید وہ عدالت میں ثابت نہ کر سکیں۔ اس لیے انہیں نجی مقامات پر رکھا جاتا ہے اور اہلِ خانہ کو ایک عرصے تک ان کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ سرکاری طور پر یہ 2000 کے قریب ہے لیکن ہمارے اندازے کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
لاپتا افراد کا مقدمہ درج کرانے کے لیے لواحقین پولیس کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں: چیف جسٹس
پاکستان میں لاپتا افراد میں سرفہرست صوبہ بلوچستان قرار دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جمعرات کو کوئٹہ رجسٹری میں پانچ افراد کی گمشدگی سے متعلق کیس کی سماعت کی اور پولیس کو لاپتا ہونے والے افراد کو بازیاب کر کے 2 ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ لاپتا افراد کا مقدمہ درج کرانے کے لیے لواحقین پولیس کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ پولیس کو کیسز کی تحقیقات نہیں آتی۔ 18-2017 سے لوگ لاپتا ہیں۔ پولیس کیا کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے گمشدگی کا مقدمہ درج کرنا تھا جو کہ نہیں کیا جا سکا۔
'کیا آپ کو معلوم ہے جبری گمشدگی کیا ہوتی ہے؟'
دو سال قبل اسلام آباد سے اغوا ہونے والے آئی ٹی ایکسپرٹ ساجد محمود کی عدم بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل عمر گیلانی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ چار سال سے بچی نے والد ساجد محمود کو نہیں دیکھا اور اس نے اپنے والد سے متعلق کچھ احساسات لکھے ہیں۔
اُنہوں نے چیف جسٹس اطہر من اللہ سے استدعا کی کہ وہ ان احساسات کو پڑھیں جس سے معلوم ہو گا کہ ایک بچی جس کے والد کے بارے میں ابھی تک یہ معلوم ہو کہ وہ زندہ ہیں۔ کیسے اپنے باپ کے بغیر رہ رہی ہے۔
عدالت نے چار سالہ بچی کے اپنے والد کے بارے میں احساسات کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنانے کا حکم دیا۔ جب کہ اس کی ایک نقل ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی دینے کا حکم دیا۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کو معلوم ہے جبری گمشدگی کیا ہوتی ہے۔ جبری گمشدگی سے مراد ریاست کے کچھ لوگ ہی شہریوں کو زبردستی غائب کرتے ہیں۔ جب کسی کا پیارا غائب ہو جائے اور ریاست کی جانب سے کہا جائے کہ ہم میں سے کسی نے اٹھایا ہے۔ تو شرمندگی ہوتی ہے۔
زیرِ سماعت کیس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ریاست تسلیم کر چکی ہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کیس میں کسی تاخیر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر آپ بحث کریں گے تو ہم وزیرِ اعظم کو نوٹس کر دیتے ہیں۔ انسان کی لاش مل جائے انسان کو تسلی ہو جاتی ہے۔ جبری گمشدگی جس کے ساتھ ہوتی ہے وہی جانتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے۔ اگر آپ ان چیزوں کو کھولیں گے تو شرمندگی ہو گی۔ یہ کورٹ بڑے احتیاط سے ان معاملات کو ڈیل کرتی ہے۔ یہ کورٹ کسی پر الزام نہیں لگاتی۔ ریاست نے اپنی ناکامی مانی ہے۔ آپ نے مانا ہے کہ یہ کیس جبری گمشدگی کا ہے۔ جب آپ ذمہ دار ہیں تو ریاست کی ناکامی کی وجہ سے اس خاندان کو معاوضہ دینا ہے۔ عدالت اپنے حکم پر عمل درآمد کرانے کے لیے ہر سطح تک جائے گی۔
عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری خزانہ کو 19 اکتوبر کو پیش ہونے کا حکم دیا اور ساتھ ہی آئندہ سماعت پر لاپتا شہری کے اہلِ خانہ کے لیے رقم کا چیک لے کر آنے کی بھی ہدایت کی۔
'گمشدہ افراد کا تمام تر الزام ریاستی اداروں پر لگا دینا درست نہیں ہے'
لاپتا افراد کے بارے میں بات کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ گمشدہ افراد کا تمام تر الزام ریاستی اداروں پر لگا دینا درست نہیں ہے، انتہا پسندی میں ملوث افراد کو بھی تلاش کرنا چاہیے۔
امجد شعیب نے کہا کہ یہاں گھروں سے جو غائب ہوتے ہیں وہ بھی لاپتا افراد ہیں۔ گھروں میں نہیں رہ رہے لیکن افغانستان یا ایران سے آ کر حملے کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں بھی بتایا جائے۔ یہ انتہا پسندی میں ملوث افراد ہیں اور ان میں سے بعض افراد کے اہلِ خانہ ان کے مسنگ ہونے کا بتاتے ہیں۔ بصورت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی تلاش میں گھروں تک جاتے ہیں۔
امجد شعیب نے کہا کہ پہلے بھی ان کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتائی گئی تھی۔ لیکن کوئی وانا میں تھا۔ تو کوئی کہیں اور تھا۔ جب یہ لوگ واپس آ جاتے ہیں تو کوئی اطلاع نہیں دیتا۔ لہذا ایسے تمام افراد جو ریاست کے خلاف ہی لڑ رہے ہیں اور ریاست کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان کی تلاش بھی ہونی چاہیے۔
رواں برس جون میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومتِ پاکستان سے جبری گمشدگیوں کو قانوناً جرم قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ جبری گمشدگی دہشت گردی کا ایک طریقہ ہے۔ جو صرف فردِ واحد کو نہیں بلکہ اس کے اہلِ خانہ اور معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔