پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان دو روزہ سرکاری دورے پر منگل کو سعودی عرب پہنچیں گے، جہاں وہ سعودی قیادت سے دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
گزشتہ ماہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ اس دورے کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر اور مشیر صنعت و تجارت عبدالرزاق داؤد بھی وزیر اعظم کے ہمراہ ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق، وزیر اعظم عمران خان کو اس دورے کی دعوت سعودی عرب کے فرماں روا، شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دی ہے۔
تاہم، بیان میں اس دورے کے ایجنڈے کے بارے میں کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی۔
روایتی طور پر پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ ہر شعبے میں قریبی تعلقات چلے آ رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ سالوں میں مشرق وسطیٰ کے معاملات بشمول یمن کے معاملے پر اسلام آباد اور ریاض کا یکساں مؤقف ہونے کے اثرات پاکستان اور سعودی عرب کے دو طرفہ تعلقات پر بھی پڑے؛ اگرچہ سعودی عرب کے جانب سے کھل کر کبھی اس کا اظہار نہیں کیا گیا۔
اسی تناظر میں تجزیہ کار وزیر اعظم عمران خان کے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب جانے کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "اس دورے کا اہم ترین پہلو باہمی تعلقات کو بہتر کرنا ہے، کچھ عرصے سے پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں یمن اور شام کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے، تھے کیونکہ پاکستان کی طرف سے ریاض اور تہران کے معاملے پر اپنی خارجہ پالیسی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کے اثرات باہمی تعلقات پر بھی پڑے تھے۔ اس تناظر میں یہ دورہ اہم ہے۔"
وزیر اعظم عمران خان ایک ایسے وقت سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں جب ملک کو بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں اور بیرونی ترسیل زر میں ہونے والی کمی سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ اس بنا پر، پاکستان کو اپنی غیر ملکی ادائیگیوں کے سلسلے میں مسائل کا سامنا ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ’بیل آؤٹ پیکج‘ کے لیے جہاں بین الاقوامی مالیاتی ادارے 'آئی ایم ایف' سے رجو ع کرنا ایک آپشن ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، اس حوالے س سعودی عرب بھی پاکستان کے لیے معاون ہو سکتا ہے۔
ہما بقائی نے اس حوالے سے کہا کہ "جس طرح کی ’فنانشل بیل آؤٹ‘ ہمیں چاہیے وہ سعودی عرب سے مل سکتی ہے۔ پاکستان کو تیل کی درآمدات پر بھی ایک کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں سعودی عرب پاکستان کو کوئی سہولت فراہم کر سکتا ہے تو شاید اس معاملے پر سعودی اور پاکستان قیادت میں تبادلہ خیال ہو۔"
پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے دو روزہ دورے کے بعد وزیر اعظم عمران خان 19 ستمبر کی شام کو ابو ظہبی پہنچے گے،جہاں وہ ولی عہد محمد بن زید النہان سے دوطرفہ امور پر بات کریں گے۔