وزیر خزانہ اسحاق ڈار نےگزشتہ چند روز سے پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق جاری چہ مگوئیوں پر وضاحت جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہمارا پروگرام قومی مفادات کے مطابق ہے۔ آئی ایم ایف سے قسط کے حصول کے لیے جاری تاخیر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ سینٹ میں میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک کے جوہری پروگرام میں کسی قسم کی مداخلت کی گنجائش نہیں ہے ۔ میرے بیان کا آئی ایف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ بیان ایک سوال کے جواب میں دیا گیا تھا جس کے آئی ایم ایف کے پروگرام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف یا کسی ملک نے ہمارے جوہری پروگرام پر کوئی شرط عائد نہیں کی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کی وجہ تکنیکی معاملات ہیں۔ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔
اس سے قبل عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ قرض معاہدے کی بحالی کو ایٹمی پروگرام سے جوڑنے کی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں۔
آئی ایم ایف کی نمائندہ برائے پاکستان ایسٹر پیریز نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات معاشی مسائل کے حل اور بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ حل کرنے پر ہورہے ہیں۔ اس ضمن میں ایٹمی پروگرام سے متعلق ہونے والی قیاس آرائیوں میں کوئی صداقت نہیں۔
آئی ایم ایف کی نمائندہ کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب بعض سیاست دان حکومت سے یہ سوالات کر رہے تھے کہ بتایا جائے کہ قرض پروگرام کی بحالی کے عوض آئی ایم ایف پاکستان کو ایٹمی پروگرام محدود کرنے کے لیے کہہ رہا ہے؟
تاہم دفتر خارجہ اور وزیرِ اعظم آفس نے اس کی تردید کی ہے۔
وزیرِ اعظم آفس نے 16 مارچ کو جاری ایک اعلامیے میں جوہری پروگرام سے متعلق قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہونے والی اس بحث کا معاملہ امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے آرمز سروسز میں بھی اٹھایا گیا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے مطمئن ہیں اور یہ محفوظ ہے۔ البتہ پاکستان کو دہشت گردی، معاشی مسائل، بجٹ اور سیاسی کشیدگی کا سامنا ہے۔
SEE ALSO: 'پاکستان اپنے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا'سولہ مارچ کو سینیٹ کی کمیٹی کے روبرو انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں عسکری تعلقات کے معاملات دیکھتے ہیں اور ان کے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کی آئی ایم ایف کے ساتھ سات ارب ڈالر قرض پروگرام کی بحالی مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی آئی ایم ایف حکام کے ساتھ کئی ملاقاتوں کے باوجود قرض پروگرام بحال نہیں ہو سکا ہے۔
اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے چھ مارچ کو وزیرِ اعظم کو لکھے گئے ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر سے متعلق ایوان کو اعتماد میں لیں۔
سینیٹر رضا ربانی نے سوالات کیے تھے پاکستان کے لوگوں کا حق ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ آیا ایٹمی اثاثے کسی دباؤ میں ہیں؟ یا ہمارے چین کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات خطرے میں ہیں؟
SEE ALSO: "کیا پاکستان کو اسٹرٹیجک مفاد کے خلاف کردار کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے؟"بعدازاں وزیرِ اعظم آفس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے جس کی ریاست غیرت مندی سے حفاظت کرتی ہے۔
ایٹمی پروگرام کا معاملہ اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب گزشتہ ہفتے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ اجلاس کے دوران تقریر کے دوران کہا کہ پاکستان اپنے جوہری یا میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پاکستان کو بتائے کہ کس رینج کے میزائل یا جوہری ہتھیار رکھنے چاہئیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے وزیرِ خزانہ کی اس تقریر کو بحران کا باعث قرار دیا ہے۔
SEE ALSO: ’وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ میں جوہری پروگرام سے متعلق بیان کیوں دیا؟‘پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اتوار کو پریس کانفرنس کے دوران مطالبہ کیا کہ اگر آئی ایم ایف نے میزائل سسٹم سے متعلق کوئی بات نہیں کی تو اسحاق ڈار بتائیں کہ انہوں نے ایوان میں اتنا بڑا بیان کیوں دیا؟
شاہ محمود کے مطابق وزیرِ خزانہ ایٹمی اثاثوں سے متعلق بات کر رہے ہیں، کیا انہیں غیر ذمے دارانہ بات کرنی چاہیے؟
دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کو ایک ساتھ بیٹھ کر مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہیے تاکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے کوئی بھی منفی بات نہ ہو سکے۔