آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ شرائط میں ایک شرط یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو منڈی کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج پر سمجھوتہ جلد ہی طے پا جائے گا۔ تاہم، پاکستانی ماہرین معیشت نے بیل آؤٹ پیکج کیلئے آئی ایم کی شرائط کو کڑی قرار دیتے ہوئے ان پر مختلف آرا کا اظہار کیا ہے۔ کچھ ماہرین کے نزدیک آئی ایم ایف نےبہت کڑی شرائط عائد کی ہیں جن کا پورا کرنا پاکستان کیلئے مشکل ہوگا، جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ اس حکومت کیلئے ان شرائط کو پورا کرنا آسان ہے، کیونکہ وہ اس کے کیلئے تیار ہے۔
معروف ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ ’’آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط بہت کڑی ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم پچھلے نومبر سے سن رہے ہیں کہ ہم کسی سمجھوتے تک پہنچ جائیں گے۔ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط انتہائی مشکل ہیں۔ فرض کر لیں کہ اگر یہ سمجھوتہ طے پا جاتا ہے اور پاکستان ان شرائط پر راضی ہوجاتا ہے، تو ان کے نفاذ میں اتنی مشکلات پیش آئیں گی کہ ہوسکتا ہے کہ یہ پروگرام معطل ہو جائے۔ یہ شرائط اتنی سخت ہیں کہ حکومتِ پاکستان کے پاس ان کے نفاذ کی اہلیت نہیں ہے‘‘۔
ان کے برعکس، فیڈریشن آف پاکستان اکنامک کونسل کے چیف اکنامسٹ ڈاکٹر ایوب مہر کہتے ہیں کہ اس حکومت کیلئے ان شرائط کو نافذ کرنا آسان ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس مرتبہ ایک خاص بات یہ ہے کہ جو گزشتہ سن انیس سو ترانوے سے لیکر آج تک نہیں تھی کہ گورنمنٹ نے باقاعدہ ایک ڈیپارٹمنٹ بنایا ہوا ہے جو پہلے کبھی نہیں تھا جس میں یہ ہے کہ بچت اقدامات کیسے لئے جائیں اور خرچے کیسے کم کئے جائیں۔ میرا خیال ہے کہ اس دفعہ اُن شرائط کو اپنانا مشکل نہیں، بلکہ آسان ہے‘‘۔
آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ شرائط میں ایک شرط یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو منڈی کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔
اس پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشفاق حسین کہتے ہیں کہ ’’پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں، جہاں چھوٹی سی منڈی ہوتی ہے، جسے ہم انٹر بینک مارکیٹ کہتے ہیں۔ اس میں اگر یہ سب مارکیٹ پر چھوڑ دیا، تو یہ منڈی، ایکسچینج ریٹ کو کھا جائے گی۔ اس لئے پاکستان جیسے ملکوں میں سینٹرل بینک کی مداخلت ضروری ہوتی ہے۔ پاکستان ایک صنعتی معاشرہ نہیں ہے، جہاں اسے مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے۔ اگر ڈالر کی قیمت ایک سو اسی روپے ہوگئی تو صورتحال کون سنبھالے گا‘‘۔
دوسری جانب، ڈاکٹر ایوب مہر کہتے ہیں کہ وہ روپے کی قدر میں کمی سے معیشت تباہ ہونے کے خدشے کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا اثر عام آدمی پر تو پڑے گا۔ لیکن، منڈی ہی قدر کا تعین کرے تو بہتر ہے کیونکہ وہ ہی کسی معیشت کی صحیح عکاس ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر قدر کے تعین کو منڈی پر چھوڑ دیا جائے تو اس کے بعد اگر قدر میں کمی ہوگی اور جو ریٹ مارکیٹ دیگی وہ سب سے اچھی علامت ہے، کیونکہ وہی مارکیٹ کی طاقت کو بھی ظاہر کرتا ہے اور معیشت کو بھی‘‘۔
اس وقت ڈالر کا ریٹ 139 روپے کے قریب چل رہا ہے۔ بقول اُن کے ’’اگر اس کی قدر میں مزید کمی ہوتی ہے، تو میرا خیال ہے کہ یہ 150 تک جا سکتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس کا بوجھ عام آدمی پر تو پڑے گا، لیکن بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن پر پالیسی اقدامات لینے ہوتے ہیں‘‘۔
وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ گیس اور بجلی کے نرخوں میں بتدریج اضافہ ہو گا اور ان پر عائد سبسڈی واپس لے لی گئی ہے، تو کیا اس سے مہنگائی ہوگی اور عام آدمی پر اس کا کتنا اثر پڑے گا؟
اس کے جواب میں، ڈاکٹر اشفاق کا کہنا تھا کہ ’’کچھ عرصہ پہلے جب گیس کے نرخ بڑھے تو لوگوں کی چیخیں نکل گئی تھیں۔ اور اب اگر مزید اضافہ ہو گا تو لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے‘‘۔
ڈاکٹر ایوب مہر کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ’’مگر، حکومت کو اس بارے میں کچھ کرنا چاہیے۔ اس وقت ملک میں احتجاج والی پوزیشن نہیں بن پائے گی۔ اگر سبسڈی واپس لیکر نرخ بڑھتے ہیں تو حکومت کو اس کا کوئی متبادل ضرور دینا ہوگا۔ اگر پاکستان میں حکومت کچھ بھی نہ کرے اور صرف براہ راست ٹیکسوں پر انحصار بڑھا دے اور بلواسطہ ٹیکسوں کو کم کردے اور جی ایس ٹی کو کم کر دے تو یقنی طور پر عوام کو بہت بڑا ریلیف مل جاتا ہے‘‘۔
ایف اے ٹی ایف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشفاق حسین نے کہا کہ یہ پاکستا ن کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے بینکنگ نظام میں موجود سقم کو دور کرے ۔ ڈاکٹر ایوب مہر کہتے ہیں کہ اگر پاکستان گرے لسٹ میں بھی رہتا ہے تو آئی ایم ایف پاکستان کو بیل آؤٹ پیکج دینے سے تو گریز نہیں کرے گا لیکن اس سے پاکستان کی سودا کاری کی پوزیشن کمزور ہو گی۔