پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے زیرِ التوا مقدمے پر 'ڈیل' کا بیان دینے پر وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کو بھی توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کر دیا ہے۔
اس سے قبل عدالت نے وزیرِ اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کو بھی اسی قسم کا نوٹس جاری کیا تھا اور وہ اس کا سامنا کر رہی ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں وفاقی وزیر غلام سرور خان کے بیان کے خلاف دائر درخواست پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔
اُس موقع پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ غلام سرور خان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ میں رد و بدل کی گئی اور اُن کی رہائی ڈیل کے ذریعے ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر نے ایسے بیانات دیے حالانکہ نواز شریف کی اپیل عدالت میں زیر التوا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ "ایک وفاقی وزیر یہ کیسے کہہ سکتا ہے۔"
سماعت کے موقع پر معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔ عدالت نے اُنہیں روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ ڈیل کے حوالے سے جو بھی بات ہے حکومت اس کا جواب دے گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت نے خود میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا جبکہ وزرا کے ایسے بیانات بہت خطرناک ہیں، اگر وفاقی کابینہ کے ارکان ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیں گے تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ اگر وزرا ہی یہ کہیں گے تو پورے سسٹم پر عدم اعتماد ہوگا۔
اس پر فردوس عاشق اعوان نے کہا "یہ ہماری پالیسی نہیں اور میں وزیرِ اعظم کے نوٹس میں معاملہ لاؤں گی، غلام سرور خان نے ایک سیاسی شخصیت پر رائے دی، میڈیکل بورڈ کے متعلق کچھ نہیں کہا۔"
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت نے غلام سرور خان کے خلاف ایکشن نہ لیا تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ یہ حکومتی مؤقف ہے۔ جس پر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ غلام سرور خان کی یہ ذاتی رائے ہو سکتی ہے اور وہ اُن کی طرف سے کچھ نہیں کہنا چاہتیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت اپنے بنائے ہوئے میڈیکل بورڈ پر ہی عدم اعتماد کر رہی ہے، ایک وفاقی وزیر یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ جھوٹی میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی۔ جب عدالت میں زیر سماعت کیسز پر بات کریں گے تو اس کا اثر تمام سائلین کے کیسز پر آئے گا۔
عدالت نے سماعت کے دوران وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کو بھی توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کر دیا۔
عدالت نے فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کیس کو غلام سرور خان کیس کے ساتھ منسلک کیا جس پر فردوس عاشق اعوان کی جانب سے استدعا کی گئی کہ ان کا کیس الگ رکھا جائے۔
فردوس عاشق اعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ غلام سرور خان کا بیان اُن کا انفرادی فعل ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو آئندہ سماعت پر ایک ساتھ سنیں گے۔
توہین عدالت نوٹس کیوں جاری ہوا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کی تھی۔ جس پر وزیرِ اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ "نواز شریف کے لیے خصوصی طور پر شام کے وقت عدالتیں لگائی گئیں۔"
فردوس عاشق اعوان کے اس بیان پر عدالت نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جس پر پانچ نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران انہوں نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی تاہم عدالت نے ان کی یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے تحریری معافی کی درخواست جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ فردوس عاشق اعوان تین مرتبہ اب تک ہائی کورٹ میں پیش ہو چکی ہیں لیکن ان کی غیر مشروط معافی کو عدالت نے اب تک قبول نہیں کیا اور اب غلام سرور خان کے ساتھ اُن کے معاملے کو سنا جائے گا۔