وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بدھ کے روز کہا کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی عدالت انصاف کی جانب سے تہران پر عائد کی جانے والی کچھ پابندیاں اٹھانے کے حکم کے بعد ایران کے ساتھ کئی عشرے قبل طے پانے والا معاہدہ ختم کر دیا ہے۔
امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے سے نکلنے کے بعد اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگا دی تھیں اور نومبر سے ایران کی تیل کی برآمدات بھی پابندیوں کی زد میں آنے والی ہیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف نے ایران کی جانب سے پابندیوں کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے امریکہ کو ادویات، خوراک اور طیاروں کے پرزوں سے پابندیاں اٹھانے کا حکم دیا ہے۔
پومپیو نے 1955 کے اس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔
پومپیو نے واشنگٹن میں ایک نیوز کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کا اعلان 39 برسوں سے التوا میں پڑا ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران امریکہ کی خودمختاری کے حق میں مداخلت کررہا ہے اور ہمارے لیے اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے قانونی اقدامات کرنے ضروری ہیں۔ اور یہ کہ ایران بین الاقوامی عدالت انصاف کو سیاسی اور پراپیگنڈے کے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
ایران نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے شکایت کی تھی کہ امریکہ نے 2015 کے بین الاقوامی جوہری معاہدے کے تحت اٹھائی گئی پابندیاں دوبارہ لگا کر 1955 کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
عدالت نے بدھ کے روز عبوری معاملات پر اپنے حکم میں کہا کہ امریکی پابندیاں ایران میں شہری ہوا بازی کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں اور امریکہ کے اقدامات خوراک، ادویات اور طبی آلات پر اثرانداز ہو رہے ہیں جس کے ایرانیوں کی زندگیوں اور صحت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
حکم میں امریکہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان شعبوں کی آزادانہ درآمد کو متاثر کرنے والے اقدامات کو ختم کر دے۔
صدر ٹرمپ نے ایران کے جوہری معاہدے کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مئی میں اس سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے کا کہنا ہے کہ ایران جوہری معاہدے پر عمل کر رہا ہے۔