عالمی عدالت کی وکیلِ استغاثہ نے کہا ہے کہ اگر نائجیریا کے حکام نے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کے تحت 'بوکو حرام ' کے شدت پسندوں کے خلاف قانونی کاروائی نہ کی تو عالمی عدالت خود ایسا کرے گی۔
واشنگٹن —
جرائم کی عالمی عدالت (آئی سی سی) کی مرکزی وکیلِ استغاثہ نے الزام عائد کیا ہے کہ نائجیریا کی مسلم شدت پسند تنظیم 'بوکو حرام' انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہورہی ہے اور اگر نائجیرین حکومت نے اس جانب توجہ نہ دی تو عدالت خود اس معاملہ کو دیکھے گی۔
عالمی عدالت کی وکیل فاتو بین سودا کے دفتر کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'بوکو حرام' کے شدت پسندوں نے نائجیریا میں بڑے پیمانے پر منظم انداز میں حملے کیے ہیں جن میں 2009ء کے وسط سے اب تک 1200 سے زائد مسیحی اور مسلمان ہلاک ہوچکے ہیں۔
بعض نشریاتی اداروں کو ملنے والی اس رپورٹ میں عالمی عدالت کی وکیلِ استغاثہ نے تجویز پیش کی ہے کہ اگر نائجیریا کے حکام نے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کے تحت 'بوکو حرام ' کے شدت پسندوں کے خلاف قانونی کاروائی نہ کی تو عالمی عدالت خود ایسا کرے گی۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں نائجیریا کی سیکیورٹی فورسز کے ملوث ہونے سے متعلق الزامات پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ سرکاری فورسز کی جانب سے شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کے مبینہ واقعات "ریاست یا اداروں کی پالیسی" کے تحت پیش آئے۔
یاد رہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے گزشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ 'بوکو حرام' اور نائجیرین حکومت کے درمیان جاری محاذ آرائی میں 2009ء سے اب تک 2800 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے 1300 کے لگ بھگ نائجیریا کی سیکیورٹی فورسز کی کاروائیوں کے نتیجے میں مارے گئے۔
'ایچ آر ڈبلیو' نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مسلح شدت پسند تنظیم اور نائجیرین حکومت کی باہم محاذ آرائی بتدریج شدت پکڑ رہی ہے اور رواں برس کے ابتدائی نو ماہ میں اس تنازع کے نتیجے میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں سوا آٹھ سو کے لگ بھگ افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔
'بوکو حرام' تنظیم کے عہدیداران کا دعویٰ ہے کہ ان کی مسلح جدوجہد کا مقصد مسلم اکثریتی شمالی نائجیریا میں اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ تنظیم ماضی میں نائیجیریا میں عیسائی عبادت گاہوں اور سرکاری تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی آئی ہے۔
عالمی عدالت کی وکیل فاتو بین سودا کے دفتر کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'بوکو حرام' کے شدت پسندوں نے نائجیریا میں بڑے پیمانے پر منظم انداز میں حملے کیے ہیں جن میں 2009ء کے وسط سے اب تک 1200 سے زائد مسیحی اور مسلمان ہلاک ہوچکے ہیں۔
بعض نشریاتی اداروں کو ملنے والی اس رپورٹ میں عالمی عدالت کی وکیلِ استغاثہ نے تجویز پیش کی ہے کہ اگر نائجیریا کے حکام نے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کے تحت 'بوکو حرام ' کے شدت پسندوں کے خلاف قانونی کاروائی نہ کی تو عالمی عدالت خود ایسا کرے گی۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں نائجیریا کی سیکیورٹی فورسز کے ملوث ہونے سے متعلق الزامات پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ سرکاری فورسز کی جانب سے شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کے مبینہ واقعات "ریاست یا اداروں کی پالیسی" کے تحت پیش آئے۔
یاد رہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے گزشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ 'بوکو حرام' اور نائجیرین حکومت کے درمیان جاری محاذ آرائی میں 2009ء سے اب تک 2800 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے 1300 کے لگ بھگ نائجیریا کی سیکیورٹی فورسز کی کاروائیوں کے نتیجے میں مارے گئے۔
'ایچ آر ڈبلیو' نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مسلح شدت پسند تنظیم اور نائجیرین حکومت کی باہم محاذ آرائی بتدریج شدت پکڑ رہی ہے اور رواں برس کے ابتدائی نو ماہ میں اس تنازع کے نتیجے میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں سوا آٹھ سو کے لگ بھگ افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔
'بوکو حرام' تنظیم کے عہدیداران کا دعویٰ ہے کہ ان کی مسلح جدوجہد کا مقصد مسلم اکثریتی شمالی نائجیریا میں اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ تنظیم ماضی میں نائیجیریا میں عیسائی عبادت گاہوں اور سرکاری تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی آئی ہے۔