امریکی فوج کا تجرباتی پرواز پر بھیجے جانے والے بغیر پائلٹ کے انتہائی تیز رفتار طیارے سے رابطہ برقرار نہ رہ سکا اور وہ فوراً ہی ٹوٹ گیا۔ یہ تجربے ایک ایسا طیارہ بنانے کے لیے کیے جارہے ہیں جوبرق رفتاری کے ساتھ عالمی خطرات سے نمٹنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
دفاعی امور میں ترقی سے متعلق امریکی ادارے نے کہاہے کہ اس کا رابطہ جمعرات کے روز ’فالکن ہائی پر سونک ٹیکنالوجی سے آرستہ طیارے‘ سے اس وقت ٹوٹ گیا جب اسے فضاء میں تقریباً 21 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چھوڑا گیا۔
یہ وہ رفتار ہے جس کے ذریعے لاس اینجلس سے نیویارک تک کا فاصلہ صرف 12 منٹ میں طے کیا جاسکتا ہے، جب کہ عام جیٹ پرواز کے ذریعے اس سفر پر کئی گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔
دفاعی تحقیق کے فوجی ادارے نے اپنا یہ تجرباتی طیارہ جمعر ات کے روز مغربی امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ایک ہوائی اڈے سے ایک راکٹ کے ذریعے خلاء میں بھیجا تھا۔
ادارے کا کہناہے کہ طیارہ کامیابی کے ساتھ راکٹ سے الگ ہوا اورزمینی مرکز سے اپنا رابطہ ٹوٹنے سے قبل زمین کی فضاء میں داخل ہوگیا تھا۔
تحقیقی ادارہ یہ جانچنا چاہتا تھا کہ زمین کے کرہ فضائی میں داخل ہوتے وقت جب طیارے کا درجہ حرارت 1900 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے،تو اسے زمینی مرکز سے کامیابی کے ساتھ کس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ بغیر پائلٹ کے اس خصوصی طیارے میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ خود کو سمندر میں گرا کر اپنی پرواز ختم کرسکتا ہے۔
جمعرات کی یہ ہائی پر سونک طیارے کی یہ پرواز اس سلسلے کا دوسرا تجربہ تھا اور امریکی فوج کو توقع ہے کہ وہ ایک ایسا طیارہ بنانے میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں برق رفتاری کے ساتھ اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکے گا۔
اپریل 2010ء میں اپنے پہلے تجربے میں، زمین سے اپنا رابطہ ختم ہونے سے قبل ہائی پر سونک طیارے نے اپنا نو منٹ کا ڈیٹا اپنے مرکز کو منتقل کیاتھا۔