’حیدرآبادی چٹخاروں‘ کا مزہ لینا ہو تو ’اچارگلی‘ چلے آئیے

چٹخار ے دار اچار کا نام سن کر ہی کچھ لوگوں کے منہ میں پانی آجاتا ہے۔ کسی شیرخوار بچے کو اچار چٹایئے۔ پھر دیکھئے کتنا مزہ آتا ہے ۔۔گویا اچار کے مزے اور انداز ہی نرالے ہیں۔اس پر کراچی کی’اچار گلی‘کے نظارے سونے پر سہاگہ کا کام دیتی ہے۔۔

حیدرآباد دکن۔۔ کراچی سے کوسوں میل دور ہے۔ لیکن، اس کی روایات، کھانوں اور خاص کر وہاں کے مشہور اچار کی کا ذائقہ چکھنا ہو تو جیل روڈ کراچی سے متصل حیدرآبادی کالونی چلے آیئے۔

صرف تین سو پچاس گھرانوں پر مشتمل یہ کالونی آپ کو ان چٹخاروں کی یاد تازہ کردے گی، جو حیدرآباد دکن، بھارت کی پہچان ہیں اور دنیا بھر میں اپنے مخصوص ذائقے کے لئے مشہور ہیں۔ یہاں آپ کو کھٹی دال اور بگھارے بینگن کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ ملے گا جو شاید پہلے آپ نے کبھی نہ کھایا ہو۔

اس کالونی کی سب سے منفرد پہچان ۔۔’اچار گلی‘ ہے جس میں داخل ہوتے ہی آپ کو جگہ جگہ لکھے بہت سے ایسے الفاظ مل جائیں گے جو حیدرآبادکی روایت و ثقافت کا حصہ ہیں ۔۔جیسے ’چٹخارے‘۔

ذکر اچار گلی کا ہو اور لفظ چٹخارے کا تذکرہ نہ نکلے، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ شاید، اِسی لئے یہاں آپ کو بیشتر دکانوں کے سائن بورڈ پر یہ لفظ لکھا مل جائے گا۔ پھر سب سے قدیم ’اچار گھر‘ کا نام بھی ’چٹخارے ہاوٴس‘ ہی ہے ۔

’چٹخارے ہاوٴس‘ کے ایک پرانے گاہک معین الدین کا وی او اے سے کہنا تھا کہ ’ہم تو بہت سالوں سے اسی جگہ اور اسی دکان سے اچار خریدتے آرہے ہیں۔ ہمارے والد یا دیگر عزیزوں میں سے کسی نے پہلی مرتبہ یہاں کا پتہ دیا تھا۔‘

اس دکان کے مالک، سید مشہود شاہ فہیم کو اس دکان کا ’سن بنیاد‘ بھی یاد ہے۔ وائس آف امریکہ سے اس دور کی یادیں شیئر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’اسے میرے والد نے ’پروردگار‘۔۔سنہ 1966 میں اسے قائم کیا تھا۔ اس وقت میں بہت چھوٹا تھا۔ لیکن، میرے ساتھ میرے بھائیوں کی طرح رہنے والے ہمارے قدیم ملازم ناصر عباس 1967ء سے اب تک اسی دکان پر کام کر رہے ہیں، جبکہ ایک اور ملازم ’پروردگار‘ ۔۔ نورعالم پچھلے 35سالوں سے ہمارے ساتھ ہیں، انہوں نے بنگلا دیش سے ہجرت کی تھی ۔ ہم تینوں ہی اس دکان کو آج تک کامیابی سے چلارہے ہیں۔ ’پروردگار‘ ۔۔

ایک سوال پر سید مشہود شاہ کا کہنا تھا کہ ’پروردگار‘۔۔یہ اس علاقے کی پہلی دکان تھی۔ باقی، چھوٹی موٹی دکانیں بعد میں کھلیں لیکن وہ بھی ہمیں سے اچار تھوک کے بھاوٴ خرید کر ’پرچون‘ میں بیچا کرتے تھے۔ ’پروردگار‘ ۔۔

سید مشہود شاہ کا بار بار ۔۔’پروردگار‘۔۔ کہنا دراصل ان کاتکیہ کلام ہے۔ جبکہ، ان کی گفتگو میں ’دکنی اردو‘ کی چاشنی جا بجا ملتی ہے۔اس لہجے کو سن کر ایک لمحے کے لئے آپ کو لگے گا گویا آپ حیدرآباد دکن کی معروف ناول نگار واجدہ تبسم کی کوئی تحریر پڑھ رہے ہوں۔ بھارت میں اردو کو پروان چڑھانے میں دکن نے جو کردار ادا کیا ہے وہ شروع ہی سے بہت اہمیت کا حا مل رہا ہے۔ اردو زبان آج بھی دکن کی احسان مند ہے۔۔اور آئندہ بھی رہے گی۔

مشہود صاحب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’حیدرآباد کا روایتی لب و لہجہ میرے آبادواجداد کی میراث ہے۔ لیکن، اسے زندہ رکھنے میں میرے گاہکوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے اور کراچی میں بسے والے میری دکان کا پتہ خوب جانتے ہیں ۔ ان سے بات چیت اور اپنائیت کی خاطر میں نے خود بھی اسی انداز کو زندہ رکھا ہوا ہے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں: ’ایک زمانہ تھا جب نہ تو پی ٹی وی کراچی سینٹر میں کینٹین ہوا کرتی تھی نہ ہی اس کے آس پاس کوئی ہوٹل تھا کہ فنکار اور قلم کار جہاں وقت گزار سکتے۔ لہذا، سب کے سب ہماری دکان پر ہی چلے آتے تھے۔ دکان کے جس حصے میں آپ کو حیدرآباد چٹنی والی پکوڑے، سموسے اور دیگر سنیکس دیکھ رہے ہیں وہ اسی دور سے ہے جب انور مقصود، بجیا، محسن شیرازی، حسینہ معین اور ان جیسے بے شمار فنکار یہیں آکر کھاتے پیتے تھے۔ انور مقصود اور محسن شیرازی سے تو میرا یارانہ تھا اور اب تک ہے۔ انور مقصود کا تعلق بھی حیدرآباد دکن سے ہی ہے۔ ان کی ساری بہنیں اور بھائی تک یہاں آتے رہے ہیں جبکہ پی ٹی وی کے انتہائی باصلاحیت پروڈیوسر محسن شیرازی تو کچھ دن پہلے بھی مجھے سے ملنے یہیں آئے تھے۔ ان کی وجاہت آج تک ’ویسی کی ویسی‘ ہی ہے۔‘

مشہود شاہ کے بچے نئے زمانے کے پرورداہ ہیں۔ وہ بچوں کو اس طرف نہیں لانا چاہتے ۔ کہتے ہیں۔ ’اس کام میں محنت بہت زیادہ ہے۔ سارے مصالحے خود تیار کرنا پڑتے ہیں، پیسنے پڑتے ہیں۔ ان کے تناسب اور آمیزیش کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے زرا سی ’اونچ نیچ‘ ہوئی نہیں کہ ذائقہ کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے، جبکہ ذائقہ ہی تو ہماری اصلی پہچان ہے۔ اس لئے بچوں پر میں کوئی جبر نہیں کرتا وہ سب پڑھ رہے ہیں۔ دو بی بی اے کر رہے ہیں جبکہ ایک سی اے کر رہا ہے۔ لڑکیوں میں سے کچھ کی شادی ہوگئی ۔۔وہ اپنے گھر اور اپنی مرضی کی مالک ہیں ۔ہمارے علاوہ سب نے انگریزی میڈیم اسکولوں میں پڑھا ہے ۔۔لیکن اردو کمزور ہے اکثر پوچھتے ہیں کہ ستاسی، نواسی اور اٹھانوے کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں۔ ایسے میں وہ یہ کام کس طرح کریں گے۔‘

چلتے چلتے، شاہ صاحب نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ’عام تاثر یہ ہے کہ پشاور، خیبر پختوانخواہ یا بلوچستان کے پشتو اور بلوچی زبان بولنے والے افراد اچار نہیں کھاتے۔ لیکن، میرے گاہکوں میں دوسری بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہے جو اسے اپنے علاقائی انداز میں اچار نہ کہہ کر ’چٹنی‘ کہتے ہیں ۔۔مثلاً ’آم کا چٹنی۔۔۔ ’یا‘ میٹھی املی کا چٹنی۔۔‘ یہ لوگ سال میں گیارہ مہینے کراچی میں رہتے ہیں اور ایک مہینہ اپنے آبائی شہروں یا دیہات میں جاکر گزارتے ہیں۔ اسلامی مہینے شعبان میں ان کی روانگی ہوتی ہے اور جاتے وقت ہر آدمی کم ازکم پانچ، دس کلو اچار تو لیکر ہی جاتا ہے۔ وہ لوگ اچار سے روٹی کھاتے ہیں ۔۔سحر اور افطار میں بھی سب سے زیادہ اچار ہی کھایا جاتا ہے۔ رمضان میں سب سے زیادہ اچار کی کھپت انہی علاقوں میں ہوتی ہے۔ یہ علاقے شہروں سے دور ہیں یہاں نہاری، کباب، کڑھائی اور بریانی تو ملتی نہیں اس لئے اچار سے روٹی کھاکر روزہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اچار ٹھنڈا ہوتا ہے ۔۔اس سے پیاس نہیں لگتی‘۔

اچار کی ’درجنوں‘دلچسپ قسمیں
عام طور پر کسی نے اس بات پر شایدکبھی غور بھی نہ کیا ہو کہ اچار کی کتنی قسمیں ہوسکتی ہیں کیوں کہ عموما ً لوگ آم، کیری، لیموں، ہر ی مرچ یا ان سب کا ’مکس اچار‘ کھانا پسند کرتے ہیں اور انہی کو پہچانتے ہیں۔ لیکن حیدرآباد کالونی میں آپ کو اچار کی اور بہت ساری قسمیں بھی دیکھنے اور کھانے کو ملیں گی مثلاً آم، لیموں، املی، مرچ، لہسن، لسوڑا، سبزی، گاجر، گوشت، جھینگا، مرغ، ادرک، کریلا، ٹیڈ، امباڑا اور مکس اچار۔

رشتہ اچار
جی ہاں ۔۔’رشتہ اچار‘ ہے نا دلچسپ نام۔ ’رشتہ اچار‘ باقی اچاروں کے مقابلے میں نسبتاً مہنگا ہے۔ اس کا موجودہ ریٹ 200روپے فی کلو ہے جبکہ اس کا ایک ٹن 240روپے کا ہے۔

مربوں کی بھی کمی نہیں
’مربہ‘ اچار ہی کی ایک قسم ہے مگر اس کا ذائقہ اوپر بیان کئے گئے اچار کی قسموں سے ذرا مختلف ہوتا ہے۔ مربوں میں سیب، آنولہ، ہڑ اور گاجر کے مربے سب سے زیادہ مشہور ہیں۔

چٹنیوں کی اقسام
اچار اور مربوں کے بعد چٹنیوں کی بھی کئی قسمیں ہیں جیسے چلی گارلیک، آلو بخارا چٹنی، نورتن چٹنی، تل کی چٹنی، ناریل کی چٹنی، پودینے کی چٹنی، کٹھی میٹھی چٹنی اور لہسن کی چٹنی۔

سرکے اور پانی والے اچار
اچار عموماً ’سرکے‘ اور ’پانی والے‘ کہلاتے ہیں یعنی ایک میں سرکا اور دوسرا سرکا ڈالے بغیر بنایا جاتا ہے ۔ سرکے والے اچاروں میں سرکہ سبزی، سرکہ لہسن، سرکہ ادرک،سرکہ مرچ،سرکہ پیاز،سرکہ لسوڑا، سرکہ گاجر،سرکہ کیری،سرکہ لیموں اور دھوپ لیموں مشہور ہے۔

اب کچھ حیدرآبادی کھانوں کا ذکر
حیدرآباد کے زیادہ تر کھانے ’کھٹے‘ ہوتے ہیں جو ذائقے میں دہلی کے کھانوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں ۔یہ کھانے حیدرآبادکالونی میں پکے پکائے اور ٹن پیکنگ میں بھی ملتے ہیں۔ ان کھانوں میں بگھارے بینگن، مرچ کا سالن، شامی کباب، چکن کباب، دم کے کباب، سوکھے کباب، کھاری مچھلی، بمبل مچھلی، ’بڑی چاول‘مُرکل، بڑی مونگ، مرچ دہی، مصالحہ بینگن، مصالحہ نہاری، لقمی، پکوڑے، دہی بڑے اور میٹھی پوری بہت مشہور ہیں جبکہ میٹھے میں ’ڈبل کا میٹھا‘ اور ’خوبانی کا میٹھا‘ حیدرآبادی کھانوں کا خاصا سمجھے جاتے ہیں۔

حیدرآبادی پاپڑ
پاپڑ حیدرآبادی کھانوں اور ’گھرانوں‘ کا ضروری جز ہیں اور ’پٹی پاپڑ‘، ’پاپڑ چاول‘، ’پاپڑ ماش‘ اور ’پاپڑ رِنگ‘ اس کی خاص قسمیں ہیں۔