فادر اسٹن کی زیرِ حراست موت پر بھارت میں احتجاج، اقوامِ متحدہ کا اظہار تشویش

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے قبائلیوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے 84 سالہ مسیحی پادری اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن فادر اسٹن سوامی کی زیر حراست موت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

حقوق انسانی سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر کی ترجمان لز تھروسیل نے جنیوا میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فادر اسٹن سوامی کی موت سے ہمیں سخت دھچکہ لگا ہے اور شدید اذیت پہنچی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کمشنر مشیل بیچلیٹ اور اقوام متحدہ کے آزاد ماہرین نے فادر اسٹن سوامی اور اس معاملے (بھیما کورے گاؤں کیس) میں ملزم بنائے گئے انسانی حقوق کے دیگر 15 کارکنوں کا معاملہ گزشتہ تین برسوں سے متعدد بار بھارتی حکومت کے سامنے اٹھایا اور عدالتی کارروائی سے قبل انہیں رہا کرنے کی اپیل کی۔

ان کے بقول ہائی کمیشن نے انسانی حقوق کے ان کارکنوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے قانون 'یو اے پی اے' کے استعمال پر بھی اپنی تشویش ظاہر کی۔ فادر سوامی نے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

تھروسیل نے مزید کہا کہ کرونا وبا کے سنگین اثرات کے پیشِ نظر بھارت سمیت تمام ملکوں کو چاہیے کہ وہ زیرِ حراست قیدیوں اور محض اختلاف رائے کی وجہ سے جیلوں میں بند افراد کو فوری طور پر رہا کریں۔

ترجمان کے مطابق ہائی کمشنر نے بھارتی حکومت پر یہ بات ایک بار پھر واضح کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اظہار کی آزادی کے بنیادی حق کے استعمال اور پر امن احتجاج کی بنیاد پر کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔

یاد رہے کہ اسٹن سوامی رعشہ سمیت دیگر کئی عوارض میں مبتلا تھے۔ وہ پیر کو ممبئی کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئے۔

وہ خرابیٔ صحت کی بنیاد پر مارچ سے ہی ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تحقیقاتی ایجنسی 'این آئی اے' جو کہ بھیما کورے گاؤں کیس کی تحقیقات کر رہی ہے ان کی ضمانت کی مخالفت کرتی رہی۔

اتوار کو ان کی صحت زیادہ خراب ہو گئی تھی جس کے بعد انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔ لیکن پیر کو تقریباً ڈیڑھ بجے دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا۔

اسٹن سوامی کو اشتعال انگیز تقریر، ماؤ نوازوں سے تعلق اور ملک کے خلاف سازش کے الزامات کے تحت گزشتہ برس گرفتار کیا گیا تھا۔

پیر کو ممبئی کی ایک عدالت میں ان کی درخواست ضمانت پر سماعت ہو رہی تھی کہ اسی دوران ان کے وکیل نے عدالت کو مطلع کیا کہ فادر اسٹن سوامی انتقال کر گئے ہیں۔

بھیما کورے گاؤں کیس کے دیگر ملزمان نے فادر اسٹن سوامی کی موت پر بدھ کو تلوجہ جیل میں ایک روزہ بھوک ہڑتال کی۔ ان کا الزام تھا کہ سوامی کی موت ادارہ جاتی 'قتل' ہے۔

ادھر بامبے کیتھولک سبھا کی جانب سے منگل کو ممبئی کے سینٹ پیٹرس چرچ کے سامنے خاموش احتجاج اور فادر اسٹن سوامی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا گیا۔ احتجاج کے شرکا کا کہنا تھا کہ فادر کی موت رائیگاں نہیں جائے گی۔

فادر اسٹن سوامی پیر کو ممبئی کے نجی اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔

فادر اسٹن سوامی کی موت کے ایک روز بعد کانگریس کی صدر سونیا گاندھی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبد اللہ سمیت 10 سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے صدر رام ناتھ کووند کے نام ایک خط تحریر کر کے فادر اسٹن سوامی کے ساتھ ہونے والے مبینہ غیر انسانی سلوک پر اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے۔

انہوں نے صدر سے اپیل کی کہ وہ حکومت کو ہدایت دیں کہ وہ اسٹن سوامی کے خلاف مبینہ جھوٹے الزامات عائد کرنے اور انہیں جیل میں رکھنے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔

ان سیاست دانوں نے بھیما کورے گاؤں کیس میں گرفتار تمام انسانی حقوق کے کارکنوں کو رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

مذکورہ خط پر مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن اور جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین، راشٹریہ جنتا دل کے تیجسوی یادو، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسی کے سیتا رام یچوری اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ڈی راجہ نے بھی دستخط کیے ہیں۔

آل انڈیا کیتھولک یونین کے صدر اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن جان دیال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فادر اسٹن سوامی کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کو سبق سکھانے کے لیے ان کی ضمانت کی درخواست منظور نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی گئی اور انہیں سسکا سسکا کر اس حالت تک پہنچایا گیا۔

ان کے بقول حکومت کی یہ پالیسی ہے کہ جو بھی حکومت کے خلاف بولے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ وہ بار بار ضمانت کی درخواست دیتے رہے لیکن عدالت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ان سے متعدد بار پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ انہیں جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

ان کے مطابق فادر اسٹن پر جو الزامات لگائے گئے وہ بے بنیاد تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے معاملے پر سماعت ہوتی اور اگر ان کا جرم ثابت ہوتا تو انہیں سزا دی جاتی اور اگر بے قصور ثابت ہوتے تو رہا کیا جاتا۔ لیکن اس طرح انھیں جیل میں رکھنا انتہائی نامناسب تھا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ جن پولیس والوں نے ان کے خلاف مبینہ طور پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔

انسانی حقوق کی ایک اور سرگرم کارکن تہمینہ اروڑہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوامی کے خلاف ابھی تک نہ تو کارروائی شروع ہوئی تھی نہ ہی فردِ جرم داخل کی گئی تھی۔ ایسے بزرگ کو اتنے دنوں تک جیل میں بند رکھنا سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کے منافی ہے۔

ان کے بقول انہوں نے متعدد بار ضمانت کی درخواستیں دیں لیکن انہیں مسترد کر دیا گیا۔ یہ نظام کی ناکامی ہے کہ لوگوں کو ضمانت نہیں مل پاتی۔

ان کے مطابق دنیا کے کئی ملکوں میں کرونا کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ضمانت دی گئی لیکن بھارت میں ایسا نہیں کیا جا رہا جو افسوس ناک ہے۔

ادھر حکومت نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی کارکنوں کے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے کہ فادر اسٹن سوامی کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ایک بیان میں کہا کہ 'این آئی اے' نے فادر اسٹن سوامی کو قانون کے مطابق گرفتار کیا اور انہیں حراست میں رکھا۔ ان کے خلاف جو مخصوص الزامات تھے ان کی وجہ سے ان کی ضمانت کی درخواستیں عدالت سے مسترد ہوتی رہیں۔

ارندم باگچی کے مطابق اسٹن سوامی کی خرابی صحت کی وجہ سے ممبئی ہائی کورٹ نے ایک نجی اسپتال میں ان کے علاج کی اجازت دی جہاں 28 مئی سے ان کا ہر ممکن علاج کیا جا رہا تھا۔

ترجمان نے زور دے کر کہا کہ بھارت اپنے تمام شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے عہد کا پابند ہے۔

فادر اسٹن سوامی کو کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟

فادر اسٹن سوامی کو گزشتہ برس آٹھ اکتوبر کو بھیما کورے گاؤں کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کا تعلق تمل ناڈو سے تھا لیکن وہ ریاست جھارکھنڈ کے شہر رانچی میں قیام پذیر تھے اور تقریباً 50 برسوں سے قبائلیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تھے۔

فادر اسٹن پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ماؤ نواز اور شہری نکسل وادی ہیں اور 31 دسمبر 2017 کو اُنہوں نے ایک تقریر کی تھی جس کے ایک روز بعد ممبئی کے مضافاتی بھیما کورے گاؤں میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جس میں ایک شخص ہلاک اور پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔

ماؤ باغی (نکسل وادی) زیادہ تر جنگلات اور معدنی وسائل سے مالا مال ریاستوں میں سرگرم ہیں جن میں قابل ذکر چھتیس گڑھ، اوڑیسا، بہار، جھاڑکھنڈ اور مہاراشٹر ہیں۔

اپنے تئیں غریبوں کے حقوق، ملازمتوں اور زمین کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والے ان ماؤ باغیوں کی کارروائیوں اور سکیورٹی فورسز سے ان کی جھڑپوں میں اب تک ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔

این آئی اے نے گزشتہ برس فادر کو بھیما کورے گاؤں کیس میں تفتیش کے لیے ممبئی طلب کیا تھا جس پر انہوں نے اپنی خرابیٔ صحت کی بنیاد پر حاضر ہونے سے معذوری ظاہر کی تھی۔ اس کے بعد این آئی اے نے انہیں رانچی میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔