روہنگیا مہاجرین کے حقوق نظر انداز نہیں کیے جا سکتے: بھارتی سپریم کورٹ

فائل

عدالت نے حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ ملک میں پناہ گزینوں کے معاملات سے نمٹتے وقت انسانی حقوق اور قومی سلامتی کے مابین توازن قائم رکھے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والے بینچ نے دو روہنگیا پناہ گزینوں کی عرضداشت پر سماعت کے دوران یہ ہدایت دی

بھارت کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کے انسانی حقوق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور مرکزی حکومت کو ان کی حالت زار کے تعلق سے حساس رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

اس نے حکومت کو ہدایت دی ہے کہ معاملے کی سماعت تک انھیں میانمار واپس نہ بھیجے۔ آئندہ سماعت 21 نومبر کو ہوگی۔

عدالت نے حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ ملک میں پناہ گزینوں کے معاملات سے نمٹتے وقت انسانی حقوق اور قومی سلامتی کے مابین توازن قائم رکھے۔

چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والے بینچ نے دو روہنگیا پناہ گزینوں کی عرضداشت پر سماعت کے دوران یہ ہدایت دی۔ عرضداشت میں پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے حکومتی فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے حکومت اور درخواست گزاروں کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ جذباتی بیانات اور ذاتی حملوں سے گریز کریں اور بین الاقوامی قوانین سمیت دیگر دستاویزات عدالت میں پیش کریں۔

انسانی حقوق کے ایک سینئر کارکن اور مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اسے توقع کے عین مطابق قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ہندوستان کے دستور کے مطابق یہاں مہاجرین کا ایک اسٹیٹس ہے۔ حالانکہ ہم نے مہاجرین کے عالمی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں، لیکن Right To Return کا جو معاہدہ ہے ہم اس کے پابند ہیں۔ لہٰذا، دستوری طور پر ہم مہاجرین کو واپس نہیں بھیج سکتے۔ آج کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس کا دھیان رکھا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ روہنگیاؤں اور انسانی حقوق دونوں کے معاملات کو مشترکہ طور پر دیکھیں تو یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ فیصلہ قابل خیر مقدم ہے اور یوں یہ روہنگیاؤں کے لیے کچھ دنوں کے لیے باعث سکون بنا۔

حکومت نے عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ روہنگیا قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ ان کے دہشت گرد گروپوں سے روابط ہیں۔ وزیر داخلہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ روہنگیا پناہ گزیں نہیں بلکہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ ان کو واپس کرنا خلاف قانون نہیں ہے۔

حکومت نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ روہنگیاؤں کو واپس بھیجنے کے پالیسی فیصلے میں مداخلت نہ کرے۔

روہنگیا مسلمانوں نے دہشت گردوں سے روابط کی سختی سے تردید کی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن بھی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روہنگیاؤں کے خلاف ایک بھی کیس نہیں ہے۔

عدالت نے روہنگیا درخواست گزاروں سے کہا کہ اگر ہنگامی حالات پیدا ہوتے ہیں تو وہ عدالت سے رجوع کریں۔