بیشتر افراد اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کمروز طرز حکمرانی اور عدالتی نظام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بڑی وجوہات ہیں۔
واشنگٹن —
پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق حالات بیشتر شہریوں اور مختلف اداروں اور تنظیموں کے مطابق ہرگز تسلی بخش نہیں۔ مبصرین کے بقول جہاں معاشرے میں صنفی، نسلی اور مذہبی اعتبار سے امتیازات پائے جاتے ہیں وہیں تعلیم، صحت، روزگار اور جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ریاست کی طرف سے کوششیں نا کافی ہیں۔
بیشتر افراد اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کمروز طرز حکمرانی اور عدالتی نظام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بڑی وجوہات ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سپریم کورٹ میں انسانی حقوق سے متعلق درخواستوں کے لیے ایک سیل کا قیام بھی عمل میں لائے مگر بہت سے لوگ اس سے مطمئن نہیں۔
عدالت عظمیٰ کی عمارت میں موجود سرگودھا کی رہائشی زینت بی بی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ گزشتہ چند سالوں سے وہ اپنے شوہر اور بیٹے کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور اپنی آبائی زمین کا قبضہ حاصل کرنے کی کوششوں کے باوجود اب بھی انصاف کی منتظر ہیں۔
"میں نے چھ مہینے پہلے چیف صاحب کو خط لکھا تھا لیکن اب تو کوئی رپورٹ نہیں ملی۔ آج ایک پرچی دے دی ہے۔ پتہ نہیں کیا ہے۔ بچوں کی جان بچانے کے لیے ادھر آئی ہوں۔ چیف صاحب کو اپنا آکری پیغام پہنچانا چاہتی ہوں"۔
زینت کو عدالتی حکام کی طرف سے منگل کو اس کی درخواست کی رسید دی گئی۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قانون ساز روبینہ خالد کہتی ہے کہ قوانین کے موثر نفاذ کے نا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں حقوق انسانی اور بالخصوص حقوق نسواں کی صورتحال کافی گھمبیر ہے۔
"قانون کی بات کی جائے تو قانون ہم نے بہت منظور کیے۔ مگر ان کے نفاذ کرنے میں ہماری کمزوری ہے۔ جس کے نتیجے میں اسے عورت کو ریلف دینے کے لیے کوئی میکانیزم نہیں۔ جس معاشرے میں پر روز عورت کو غیرت کے نام پر جلائی جائے یا قتل کردیا جائے یا غلط سلوک کیے جہاں وہاں انسانی حقوق کیسے اطمینان بخش ہو سکتے ہیں"۔
سینئر قانون دان طارق حسن کے مطابق عدالتی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات سے ہی جلد انصاف کی فراہمی ممکن ہے جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی اور قانون کا خوف پیدا ہوگا۔
"سیکڑوں کی تعداد میں جو درخواستیں ملیں ہمیں نہیں پتہ کہ ان کے چناؤ کا کیا معیار ہے۔ بظاہر تو میڈیا کے پسندیدہ مقدمات کو اٹھایا گیا۔ بجائے کہ سالہا سال لٹکے رہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ ان کی پہلے ہی جانچ پڑتال ہو اور اسی بنیاد پر اسے آگے بڑھایا جائے تو جلد نمٹائے جا سکتے ہیں"۔
منگل کو جبری گمشدگیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مشتبہ افراد کو تحویل میں لینے کے عمل کو ضابطہ کار کے تحت لانے کے لیے فوری قانون سازی کرے تاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔
وفاقی وزیر برائے سرحدی امور عبدالقادر بلوچ نے گزشتہ حکومتوں کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا۔
"ایسی بات نہیں کہ پاکستان میں ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ مگر ہاں یہ (لاپتہ افراد کا) ایک مسئلہ بڑا گھمبیر قسم کا ہے۔ چاہیے یہ تھا کہ (بجائے) ریاست کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا، حکومت کو قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا۔ ہم پریشان ہے اس بارے میں اور بہت جلد مطلوبہ کارروائیاں کی جائیں گی"۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی گزشتہ چند سالوں سے جبری گمشدیوں کے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان سے موثر اقدامات کا مطالبہ کرتی آئی ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنے سے ان کی خلاف ورزیوں پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
بیشتر افراد اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کمروز طرز حکمرانی اور عدالتی نظام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بڑی وجوہات ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سپریم کورٹ میں انسانی حقوق سے متعلق درخواستوں کے لیے ایک سیل کا قیام بھی عمل میں لائے مگر بہت سے لوگ اس سے مطمئن نہیں۔
عدالت عظمیٰ کی عمارت میں موجود سرگودھا کی رہائشی زینت بی بی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ گزشتہ چند سالوں سے وہ اپنے شوہر اور بیٹے کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور اپنی آبائی زمین کا قبضہ حاصل کرنے کی کوششوں کے باوجود اب بھی انصاف کی منتظر ہیں۔
"میں نے چھ مہینے پہلے چیف صاحب کو خط لکھا تھا لیکن اب تو کوئی رپورٹ نہیں ملی۔ آج ایک پرچی دے دی ہے۔ پتہ نہیں کیا ہے۔ بچوں کی جان بچانے کے لیے ادھر آئی ہوں۔ چیف صاحب کو اپنا آکری پیغام پہنچانا چاہتی ہوں"۔
زینت کو عدالتی حکام کی طرف سے منگل کو اس کی درخواست کی رسید دی گئی۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قانون ساز روبینہ خالد کہتی ہے کہ قوانین کے موثر نفاذ کے نا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں حقوق انسانی اور بالخصوص حقوق نسواں کی صورتحال کافی گھمبیر ہے۔
"قانون کی بات کی جائے تو قانون ہم نے بہت منظور کیے۔ مگر ان کے نفاذ کرنے میں ہماری کمزوری ہے۔ جس کے نتیجے میں اسے عورت کو ریلف دینے کے لیے کوئی میکانیزم نہیں۔ جس معاشرے میں پر روز عورت کو غیرت کے نام پر جلائی جائے یا قتل کردیا جائے یا غلط سلوک کیے جہاں وہاں انسانی حقوق کیسے اطمینان بخش ہو سکتے ہیں"۔
سینئر قانون دان طارق حسن کے مطابق عدالتی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات سے ہی جلد انصاف کی فراہمی ممکن ہے جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی اور قانون کا خوف پیدا ہوگا۔
"سیکڑوں کی تعداد میں جو درخواستیں ملیں ہمیں نہیں پتہ کہ ان کے چناؤ کا کیا معیار ہے۔ بظاہر تو میڈیا کے پسندیدہ مقدمات کو اٹھایا گیا۔ بجائے کہ سالہا سال لٹکے رہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ ان کی پہلے ہی جانچ پڑتال ہو اور اسی بنیاد پر اسے آگے بڑھایا جائے تو جلد نمٹائے جا سکتے ہیں"۔
منگل کو جبری گمشدگیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مشتبہ افراد کو تحویل میں لینے کے عمل کو ضابطہ کار کے تحت لانے کے لیے فوری قانون سازی کرے تاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔
وفاقی وزیر برائے سرحدی امور عبدالقادر بلوچ نے گزشتہ حکومتوں کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا۔
"ایسی بات نہیں کہ پاکستان میں ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ مگر ہاں یہ (لاپتہ افراد کا) ایک مسئلہ بڑا گھمبیر قسم کا ہے۔ چاہیے یہ تھا کہ (بجائے) ریاست کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا، حکومت کو قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا۔ ہم پریشان ہے اس بارے میں اور بہت جلد مطلوبہ کارروائیاں کی جائیں گی"۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی گزشتہ چند سالوں سے جبری گمشدیوں کے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان سے موثر اقدامات کا مطالبہ کرتی آئی ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنے سے ان کی خلاف ورزیوں پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔