رواں ماہ پاکستان میں پے در پے دہشت گرد حملوں کے بعد حکومتی عہدیدار دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کارروائیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر غیر سرکاری تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تمام نکات پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔
رواں ماہ 13 جنوری کو کوئٹہ میں ایک پولیو ویکسینیشن سینٹر کے قریب پولیس نفری پر حملے میں 16 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس میں 13 پولس اہلکار بھی شامل تھے۔ 18 جنوری کو ایک خودکش بمبار نے پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی کے علاقے جمرود میں ایک چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 11 افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور 20 جنوری کو چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں 21 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
اس سے قبل 29 دسمبر کو خیبرپختونخوا کے شہر مردان میں نادرا کے ایک مرکز پر بھی خودکش حملہ کیا گیا جس میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پیر کو پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ اکا دکا واقعات چاہے کتنے ہی خوفناک اور المناک کیوں نہ ہوں ہمیں انہیں اپنی کامیابیوں کو دھندلانے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔
اُنہوں نے کہا کہ ’’جو لوگ ہر واقعے کے بعد افسردگی اور مایوسی پھیلا رہے ہیں وہ ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔‘‘
تاہم ان حملوں خصوصاً باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد عوام میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے کہا کہ ہر بار جب حکومت یا فوج یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے تو شدت پسند ان دعوؤں کو غلط ثابت کر دیتے ہیں۔
’’یہ بھی کہا گیا تھا کہ 2016ء میں دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا۔ مگر یہ سال شروع ہونے کے ساتھ ہی ایک اتنا بڑا حملہ ہوا چارسدہ کی یونیورسٹی پر۔ جو حکومت کی پالیسی ہے چاہے وہ انسداد دہشت گردی کا قومی لائحہ عمل ہو یا فوجی عدالتیں ہوں، یا سزائے موت پر عملدرآمد کی بحالی ہو، یہ پالیسیاں کامیاب ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔ قومی لائحہ عمل کے 20 نکات پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔‘‘
زہرہ یوسف نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ حکومت کوشش نہیں کر رہی مگر ان کے بقول حکومت کو اپنی حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیئے۔
چوہدری نثار علی خان نے بھی پیر کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ داخلی سلامتی ایک کثیر جہتی ذمہ داری ہے جس کے لیے مسلسل کوششوں، نگرانی اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پشاور اسکول پر حملے کے بعد ملک کی سکیورٹی صورتحال میں واضح بہتری دیکھی گئی جو فوج، پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر اداروں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔