پاکستان میں بدھ کو ہونے والے عام انتخابات میں پشتونوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم 'پشتون تحفظ تحریک' (پی ٹی ایم) کے بھی دو رہنما رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 48 شمالی وزیرستان سے محسن داوڑ متحدہ مجلس عمل کے اُمیدوار کے مقابلے میں 16496 ووٹ حاصل کرکے قومی اسمبلی کے رکن منتحب ہوئے ہیں۔
پی ٹی ایم کے ایک اور رہنما علی وزیر بھی جنوبی وزیرستان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 50 سے 23530 ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی بن گئے ہیں۔
رواں سال کے آغاز پر جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کے کراچی میں پولیس کے ایک جعلی مقابلے میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی تحریک 'پی ٹی ایم' کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ غیر پارلیمانی اور غیر سیاسی تحریک ہے۔
اسی مؤقف کی بنیاد پر پی ٹی ایم نے انتخابات میں حصہ لینے والے اپنے آٹھ سرگرم ارکان کو - جن میں محسن داوڑ، علی وزیر، عبداللہ ننگیال، عصمت شاہ جہان، رادیش سنگھ ٹونی، حامد شیرانی، عبدالوحد اور جمال ملیار شامل تھے - گزشتہ ماہ تنظیم کی کور کمیٹی سے الگ کردیا تھا۔
پی ٹی ایم کے اس فیصلے کے بعد تحریک کے مستقبل کے متعلق سوالات اٹھائے جا رہے تھے جب کہ رہنماؤں کے مبینہ اختلافات اور تحریک پر اس کے اثرات کے بارے میں بھی خبریں سامنے آئی تھیں۔
پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین با رہا یہ کہہ چکے ہیں کہ انتخابات اور سیاسی عمل کے ساتھ ان کی تحریک کا کوئی تعلق نہیں۔
لیکن اب پی ٹی ایم کے دو رہنماؤں کے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہو جانے کے بعد منظور پشتین کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ ہوگا کہ وہ اپنے دو اہم ساتھیوں کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے منظور پشتین نے کہا کہ پی ٹی ایم ایک غیر سیاسی تنظیم ہے اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ شروع ہی سے تنظیم کا یہ مؤقف رہا ہے کہ جو بھی حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے اُس پر تنظیم کے جانب سے کوئی پابندی نہیں لیکن پی ٹی ایم کسی بھی سیاسی پارٹی یا اُمیدوار کی حمایت نہیں کرتی۔
تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ سے اب پی ٹی ایم کے تعلق کی نوعیت کیا ہوگی۔
تجزیہ نگار اور پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر اعجاز خان خٹک کا کہنا ہے کہ محسن داوڑ اور علی وزیر کی پی ٹی ایم کی تحریک کے لیے بڑی خدمات ہیں لیکن مستقبل میں اُن کی تنظیم کے ساتھ وابستگی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ مرکز میں حکومتی جماعت کے ساتھ بیٹھتے ہیں یا حزبِ اختلاف کا ساتھ دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر خٹک کا کہنا تھا کہ دونوں اُمیدوار آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس سے پہلے بھی دونوں انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم نے انتخابی مہم میں کسی بھی اُمیدوار کی حمایت نہیں کی اور شاید یہی وجہ ہے کہ تنظیم پارلیمانی نظام سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر اعجاز خان خٹک کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کو اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے غیر سیاسی ہی رہنا ہوگا کیوں کہ اگر وہ یہ نہیں کرتی تو پشتونوں کے مسائل مزید بڑھیں گے اور لوگ مزید تقسیم ہو جائیں گے۔
پی ٹی ایم کا پاکستانی اداروں کے حوالے سے رویہ کافی سخت رہا ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا دونوں منتخب رکنِ پارلیمان ایوان میں بھی اسی قسم کے باتیں کریں گے جیسی وہ تحریک کے جلسوں میں کرتے رہے ہیں؟
یہی سوال جب وائس آف امریکہ نے محسن داوڑ کے سامنے رکھا تو ان کا موقف تھا کہ انہوں نے آج تک بغیر کسی دلیل کے کوئی بے بنیاد الزام اداروں پر نہیں لگایا ہے اور جو اصل مسائل پشتون علاقوں میں عوام کو درپیش ہیں انہی کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اگر وہ پارلیمنٹ کے باہر تو حقوق کی بات کریں اور پارلیمنٹ کے اندر خاموش رہیں تو یہ ان کے خیال میں ان کے ووٹرز کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی۔
اُنہوں نے بتایا کہ انتخابات میں مختلف مسائل سامنے آئے لیکن مقامی سطح پر اتنی حمایت حاصل تھی کہ تمام مشکلات خود بخود دور ہوگئیں۔