مسلم لیگ (ن) کو درپیش چیلنجز؛ 'نواز شریف کی واپسی کے لیے بھی ماحول سازگار نہیں'

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کی وجہ سے ایک برس قبل تک ملک کی سب سے مقبول جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) عوامی سطح پر تنقید کی زد میں ہے۔

عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کے دورِ حکومت میں مہنگائی کے ہاتھوں پریشان تھے۔ لیکن اس دور میں تو مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی بظاہر اُن کی ناکامی تھی۔ لیکن اس کے بعد وہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اب مسلم لیگ (ن) کو اپنا سیاسی اثاثہ بچانے کا چیلنج درپیش ہے۔

ایسے میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کروانے کے فیصلے کے بعد کی نئی صورتِ حال میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی و قانونی حکمتِ عملی کیا ہو گی۔

'تحریکِ عدم اعتماد کے بعد الیکشن کی طرف جانا چاہیے تھا'

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر آصف کرمانی کہتے ہیں کہ آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے حکومت میں آنے کے باوجود حکومت کو نہیں چلنے دیا گیا جب کہ ایک سال سے ادارے بھی غیر فعال ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر کرمانی کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عام انتخابات کی طرف جانا چاہیے تھے، تاہم اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ ملک کی معیشت کو درست کرنا ہے تو سیاسی اثاثہ کھو کر بھی یہ قربانی دینی چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام شراکت دار ڈائیلاگ کریں جس کا ایجنڈا ملک کو سیاسی استحکام کی راہ پر ڈالنا ہو اور اس میں معاشی روڈ میپ دیا جائے۔

'جمہوریت کا راستہ گم ہوتا دکھائی دیتا ہے'

تجزیہ نگار سجاد میر کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنا چاہتی تھی اور اس کے علاوہ ان کے پاس ملکی مسائل کو حل کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔


وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سجاد میر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے انتخابات نہ کروا کر غلطی کی اور اب نتیجہ یہ ہے کہ بیچ میدان میں کھڑے ہیں اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ صورتِ حال یہ ہے کہ ریاستی ادارے منقسم ہیں اور سول سوسائٹی بھی تقسیم ہے اور کوئی ابھی ایک صفحے پر نہیں ہے۔

سجاد میر نے کہا کہ بے یقینی، ابہام، عدم استحکام، سیاسی انتشار کا یہ عالم ہے کہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کس سمت جانا ہے۔ ان کے بقول جمہوریت کا راستہ گم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملکی مسائل اور سیاسی حالات میں بہتری کا حل صرف سیاست دان نہیں نکال سکتے بلکہ اس کے لیے تمام شراکت داروں کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔

سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ انتخابات ملکی مسائل کا حل نہیں ہیں اور ایسے ماحول میں انتخابات کے نتیجے میں سیاسی انتشار میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ نہیں تو اسے کم سے کم سطح پر لائے بغیر انتخابات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گے بلکہ مسائل میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔

تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) بغیر حکمتِ عملی کے حکومت میں آئی اور اب بھی توجہ صرف یہ ہے کہ عمران خان کو قابو کیا جاسکے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کی بھی حکومت کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی بلکہ عمران خان کو عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کا انتظار کیا جارہا ہے۔


وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اندرونی مسائل و خلفشار کا بھی شکار ہے جس بنا پر انہیں اپنی ساکھ کی بحالی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ضیغم خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی توجہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو التوا میں ڈالنے پر مرکوز ہے تاہم ان کی نظر میں مسلم لیگ (ن) کا اصل چیلنج انتخابات نہیں بلکہ پارٹی کی ساکھ بحال کرنا ہے۔

سجاد میر سمجھتے ہیں کہ انتخابات مسائل کا حل نہیں ہے۔ ان کے بقول سیاسی تقسیم اتنی بڑھ چکی ہے کہ الیکشن ہو بھی جائیں تو بھی بے یقینی رہے گی اور نہ ہوئے تب بھی سیاسی عدم استحکام رہے گا۔

'نواز شریف کی واپسی کے لیے بھی ماحول سازگار نہیں'

ضیغم خان کہتے ہیں کہ ملک کا سیاسی ماحول اس وقت نواز شریف کی واپسی کے لیے ساز گار نہیں جس کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد کی واپسی کے امکانات دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے ماحول میں جب حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کی صورتِ حال ہو تو نواز شریف واپسی کا نہیں سوچیں گے کیوں کہ ان کے مقدمات آخرکار سپریم کورٹ ہی سنے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی میں اب بہت دیر ہوچکی ہے اور ان کے آنے سے بھی ملکی حالات میں زیادہ تبدیلی آئے گی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف تیزی سے بڑھے گا۔