بحر ہند میں سیکیورٹی خدشات: نیوی میں شامل کی جانے والی وار شپ کتنی خاص ہیں؟

  • آبدوز اور جنگی جہازوں کی نیوی میں شمولیت کے موقع پر وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ بھارت ایک آزاد اور سب کے لیے محفوظ انڈو پیسفک کے حق میں ہے۔
  • بحریہ میں آبدوز اور جنگی جہازوں کی شمولیت بہت ضروری تھی اور یہ بہت اہم بھی ہے: سینئر دفاعی تجزیہ کار کے وی پرساد
  • پروجیکٹ 15 پر روس کا اثر تھا لیکن پروجیکٹ 15 اے میں دیسی ڈیزائن نے جگہ لے لی: سینئر دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا

نئی دہلی -- بھارتی نیوی کے بیڑے میں بدھ کو دو جنگی جہازوں اور ایک آبدوز کی شمولیت کو بھارتی بحریہ کے لیے ایک تاریخی قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے بھارت کی جنگی طاقت میں کافی اضافہ ہو گا۔

اس قدم کو بحر ہند کے علاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔

چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل دنیش کے ترپاٹھی کے مطابق نیوی میں اس نئی شمولیت سے بھارت کے قومی بحری مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں بحری افواج کی آپریشنل صلاحیتوں کو تقویت ملے گی۔

انھوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اس وقت 62 جنگی جہاز اور ایک آبدوز زیرِ تعمیر ہیں۔

آبدوز اور جنگی جہازوں کی نیوی میں شمولیت کے موقع پر وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ بھارت ایک آزاد اور سب کے لیے محفوظ انڈو پیسفک کے حق میں ہے۔

ان کے بقول بھارت بین الاقوامی سیکیورٹی اور جیو پولیٹکس کو ایک سمت دینے میں اہم کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔

سینئر دفاعی تجزیہ کار کے وی پرساد کا کہنا ہے کہ بحریہ میں آبدوز اور جنگی جہازوں کی شمولیت بہت ضروری تھی اور یہ بہت اہم بھی ہے۔ بھارت کی ساحلی پٹی 7500 کلو میٹر لمبی ہے اور اس کی حفاظت اور نگرانی بحریہ کرتی ہے۔

وزیرِ اعظم کے بقول بحری پٹی، تجارتی سپلائی لائن اور بحری راستوں کا تحفظ بہت اہم ہے۔ بھارت کو بحری علاقے کو منشیات، ہتھیار اور دہشت گردانہ سرگرمیوں سے تحفظ میں عالمی اشتراک بڑھانا اور اسے محفوظ اور خوشحال بنانا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کے وی پرساد کا کہنا تھا کہ بحرِ ہند اور انڈو پیسفک میں جنوبی بحیرہ چین اور مغربی ایشیا سے کافی تجارتی ٹریفک آتا ہے۔ لہٰذا بھارت کے لیے ضروری ہے کہ وہاں اس کے بحری جہاز موجود رہیں۔

سینئر دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا کے مطابق 1980 کے عشرے میں سوویت یونین کی طرف سے پانچ کاشین کلاس ڈسٹرائرز کو نیوی میں شامل کرنے کے بعد بھارت اپنے ڈسٹرائرز ڈیزائن کرنے اور بنانے کے لیے پرعزم ہو گیا۔

اُن کے بقول پہلے تین ڈسٹرائرز آئی این ایس دہلی، آئی این ایس میسور اور آئی این ایس ممبئی صدی کے آخر میں بنائے گئے۔

ان کے مطابق پروجیکٹ 15 پر روس کا اثر تھا لیکن پروجیکٹ 15 اے میں دیسی ڈیزائن نے جگہ لے لی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی نیوی میں جو تین وار شپ شامل کی گئی ہیں انہیں بحری جنگی جہاز بنانے والی بھارت کی سب سے بڑی کمپنی ’مزگاوں ڈوک شپ بلڈرز لمٹیڈ‘ ممبئی نے تیار کیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ آئی این ایس سورت، آئی این ایس نیلگیری اور آئی این ایس واگشیر میں الگ الگ خصوصیات ہیں۔

جنگی جہازوں میں خاص کیا ہے؟

آئی این ایس سورت بھارت کا پہلا آرٹیفیشل انٹیلی جینس (اے آئی) سے چلنے والا جنگی جہاز ہے جو اپنی آپریشنل کارکردگی کو کئی گنا بڑھانے کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ اے آئی سولیوشنز کا استعمال کرے گا۔

یہ اسٹیلتھ گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر ہے جو جدید ترین تیکنیک سے لیس ہے۔ اس کی لمبائی 164 میٹر اور وزن تقریباً 7400 ٹن ہے۔ یہ سمندر میں 30 ناٹس (56) کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پکڑ سکتا ہے۔

اسے اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ یہ دشمنوں کے ریڈار سے چھپا رہتا ہے۔ یہ سطح سے سطح پر مار کرنے والے میزائلوں سے لیس ہے جہاں سطح سے ہوا میں مار کرنے والے دو ورٹیکل لانچر ہیں جن میں سے ہر ایک سے 16 میزائل داغے جا سکتے ہیں۔

اس میں جدید ترین سینسر اور مواصلاتی سہولتیں بھی ہیں۔ اس پر ایک وسیع پلیٹ فارم ہے جو جدید ترین آلات اور سینسر اور اینٹی شپ میزائل اور تارپیڈو سے لیس ہے۔

آئی این ایس نیلگیری اگلی جنریشن کا اسٹیلتھ فریگیٹ ہے۔ اسے بلیو واٹر آپریشن کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کی خصوصیات میں ریڈار سگنیچر کو کم کرنے کی تیکنیک شامل ہے۔ یہ روایتی اور غیر روایتی دونوں قسم کے خطرات سے نمٹ سکتا ہے۔

یہ اینٹی سرفیس، اینٹی ایئر اور اینٹی سب میرین لڑائی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس میں زمین سے زمین تک مار کرنے والا سوپر سونک میزائل سسٹم، درمیانی دوری کا زمین سے ہوا میں مار کرنے والا میزائل سسٹم اور 76 ملی میٹر ترقی یافتہ گن اور ریپڈ فائیر کلوز ان ویپن سسٹم نصب ہے۔

اس کا وزن تقریباً 6670 ٹن ہے اور اس کی لمبائی 149 میٹر ہے۔

آئی این ایس واگشیر اسکارپین کلاس آبدوز ہے جو جدید ترین ہتھیار اور جنگی نظام سے لیس ہے۔ یہ سمندر میں خفیہ طور پر کام کرنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔

اس کی لمبائی 68 میٹر اور وزن تقریباً 1550 ٹن ہے۔ یہ آبدوز خفیہ طور پر کام کرنے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔

اس میں وائر گائیڈڈ تارپیڈو اور اینٹی شپ میزائل شامل ہیں جو اسے سطح کے اوپر اور زیر آب اہداف کو تباہ کرنے کی اہل بناتے ہیں۔ یہ دشمن کے جہاز کو نشانہ لینے اور اسے ڈبونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہ فرانس کے نیوی گروپ کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ آبدوز دشمن کے ریڈار سے بچنے، علاقے کی نگرانی کرنے، خفیہ معلومات اکٹھی کرنے، کم شور کرنے اور ماحولیات کے اعتبار سے خود کو ڈھال لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اے آئی پی ٹیکنالوجی سے لیس

تجزیہ کار کے وی پرساد کے مطابق اس آبدوز کو بہت پہلے نیوی میں شامل کیا جانا تھا۔ لیکن اس کی تیاری میں تاخیر ہوئی۔ ان کے مطابق اس میں جدید ترین سونار سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے جو اس کی نگرانی کی اہلیت میں اضافہ کرتا ہے۔

ان کے مطابق پروجیکٹ 75 کے تحت بنائی جانے والی یہ چھٹی اور آخری آبدوز ہے۔ اس کے بعد مزید تین آبدوز بنانے کی تیاری ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس میں ’ایئر انڈیپنڈنس پروپلشن‘ (اے آئی پی) ٹیکنالوجی لگانے کی سہولت ہے۔ اس میں اس ٹیکنالوجی کو نصب کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ ابھی اس میں لگ نہیں پائی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اے آئی پی ٹیکنالوجی سے آبدوز زیادہ دیر تک زیر آب رہ سکتی ہے۔ ورنہ اسے 16 سے 24 گھنٹے کے اندر ایندھن لینے کے لیے سطح آب پر آنا پڑے گا۔ یہ ٹیکنالوجی ابھی تیاری کے مرحلے میں ہے۔

ان کے مطابق نیوی میں ان جنگی جہازوں اور آبدوز کی شمولیت سے کسی بھی علاقائی خطرے سے نمٹنے اور بحر ہند میں بھارت کی بحری صلاحیتوں میں اضافے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

خیال رہے کہ نیوی میں ان کی شمولیت کے موقع پر وزیرِ اعظم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت بحر ہند خطے میں ردِعمل ظاہر کرنے والی پہلی طاقت کی حیثیت سے ابھرا ہے۔

تجزیہ کار کے مطابق انڈو پیسفک خطے میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں سے عالمی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا اگر بھارت کے اس قدم کو عالمی تناظر اور بالخصوص بھارت، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل چار ملکی گروپ کواڈ کے تناظر میں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس کی اسٹریٹجک اہمیت کا اندازہ ہو گا۔