امریکی ایوان نمائندگان کی ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی نے منگل کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی سے متعلق اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے جس کا تعلق معاملے کی چھان بین اور سفارشات سے ہے۔
انکوائری رپورٹ میں صدر ٹرمپ پر نامناسب رویے اور چھان بین کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
ڈیمو کریٹک اراکین ایڈم شیف، کیرولائن میلونی اور ایلئیٹ اینجل کی جانب سے، جو امریکی ایوان نمائندگان کی انٹیلیجنس، نگرانی، اور خارجہ امور کی کمیٹیوں کے سربراہ ہیں، جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ "شواہد موجود ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے یوکرین پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کے سیاسی حریف اور سابق نائب صدر جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات کا اعلان کریں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یہ تاثر پیدا کیا کہ 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس نے نہیں یوکرین نے مداخلت کی کوشش کی۔ یہ تحقیقات صدر ٹرمپ کی 2020 کی انتخابی مہم کو فائدہ پہنچانے کے لیے شروع کرائی گئیں۔"
ریپبلکن اراکین کانگریس کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں ایسی کوئی بات نہیں، جس کی وجہ سے مواخذے کی نوبت آئے لیکن ڈیمو کریٹک اراکین کانگریس اس سے متفق نہیں۔
جوڈیشنل کمیٹی بدھ سے مواخذے کی کارروائی کی سماعت کا آغاز کر رہی ہے لیکن اس میں صدر ٹرمپ کا کوئی وکیل موجود نہیں ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اپنا وکیل نہیں بھیجیں گے کیونکہ پوری کارروائی ایک جھانسے کے گرد بنی گئی ہے۔
انہوں نے ڈیموکریٹس پر تنقید کی کہ وہ معاملے کی سماعت ایسے وقت کر رہے ہیں جب وہ نیٹو کے دفاعی اتحاد کے لندن میں سربراہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے پیر کی شام ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’’برطانیہ پہنچنے سے پہلے میں نے مواخذے کے جھانسے پر ری پبلکن نمائندوں کی رپورٹ دیکھی ہے۔ انہوں نے قابل قدر کام کیا ہے۔ بنیاد پرست بائیں بازو کا کوئی کیس نہیں بنتا۔ متن کو پڑھ لیں۔ اس کی اجازت تک نہیں ہونی چاہیے۔ اسے روکنے کے لیے کیا ہمیں عدالت عظمیٰ جانا چاہیے؟‘‘
بدھ کی سماعت صدر کے خلاف مواخذے کے گرد گھومنے والی آئینی شقوں پر مرکوز ہوگی جس میں گواہان کے طور پر چار قانونی ماہرین پیش ہوں گے۔
جوڈیشری کمیٹی نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ گواہان کی فہرست میں قانون کے پروفیسرز ہیں، جن میں ہارورڈ یونیورسٹی کے نوہا فیلڈمین، اسٹین فرڈ یونیورسٹی کی پامیلہ کرلان، نارتھ کیرولینا یونیورسٹی کے مائیکل گیراڈ اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے جوناتھن ترلے شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کے تازہ بیان کی بھی نشاندہی کی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ امریکی صدر سے ’’کچھ دو کچھ لو‘‘ کی بنیاد پر کبھی کوئی بات نہیں کی۔