سندھ پولیس کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبے بھر میں گزشتہ ڈھائی سال کے دوران 279 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔ جبکہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران کارو کاری یا غیرت کے نام پر 79 افراد قتل ہوئے۔ جن میں 50 خواتین اور 29 مرد شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران پیش آنے والے واقعات پر پولیس نے 65 مقدمات درج کیے۔ جن میں سے بیشتر کی تحقیقات کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی۔ اس کی وجوہات پولیس کے تفتیشی نظام میں کمزوریاں بتائی جاتی ہیں۔
سندھ پولیس ہی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2017 میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والے افراد کی تعداد 92 تھی۔ جبکہ 2018 میں پیش آنے والے واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 108 ہوگئی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ کس قدر گھمبیر ہے۔
ممتاز سماجی کارکن اور عورت فاؤنڈیشن کی ریزیڈنٹ ہیڈ برائے سندھ مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل، صوبے میں بلیک میلنگ کے لیے اہم عنصر بن چکے ہیں اور ان کا مقصد مخالفین سے مالی فوائد حاصل کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مہناز رحمان کا اصرار تھا کہ یہ کوئی غیرت کا معاملہ نہیں بلکہ پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بنا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایسے فیصلے زیادہ تر جرگوں کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ جبکہ سندھ ہائی کورٹ اپنے ایک فیصلے میں صوبے میں ہونے والے جرگوں کے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔
سماجی ماہرین کارو کاری یا غیرت کے نام پر بڑھتے ہوئے قتل کے واقعات کو سندھ کی سماجی روایات سے جوڑنے کی نفی کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس قبیح فعل کے پیچھے درحقیقت مخالفین سے بدلہ لینے اور عورت کو فیصلے سے محروم کرنے کی سوچ ہے۔ جو کئی دیگر معاشروں میں بھی پائی جاتی ہے۔
خواتین کی حالات پر نظر رکھنے کے لیے قائم صوبائی کمیشن نے بھی رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن کی چیئرپرسن نزہت شیریں کے مطابق خواتین کی ترقی اور بہبود حکومتی ترجیحات میں بہت نیچے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیشن کی جانب سے آٹھ اہم قوانین میں ردو بدل کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی کابینہ کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا۔
اُنہوں نے مزید کہا ہے کہ کاری قرار دی جانے والے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پورے صوبے میں چار دارالامان موجود ہیں۔ تاہم یہاں پر بھی صرف چند ماہ ہی قیام کی اجازت مل سکتی ہے۔ جس کے بعد پھر سے متاثرہ خواتین کو جان کے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ایسے میں سارا انحصار ایک بار پھر پولیس پر ہوتا ہے۔ جسے اس بارے میں اپنی تحقیقات سے متعلق کارکردگی بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
دوسری جانب صوبے میں کارو کاری کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘انسان دوست فاؤنڈیشن’ سے منسلک سماجی رہنما عبدالجبار راجپر کا کہنا ہے کہ صورت حال میں کچھ مثبت تبدیلی ضرور آئی ہے اور اب پہلے سے زیادہ مقدمات کا اندراج ہورہا ہے۔
راجپر کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کی گئی قانون سازی کے تحت غیرت کے نام پر قتل کی سزا عمر قید رکھی گئی ہے۔ لیکن ضرورت ان قوانین کے اطلاق کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروا کر ہی اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سماجی رہنما عبدالجبار راجپر کا کہنا ہے کہ کیس میں اصل رکاوٹ اس وقت پیش آتی ہے جب اس مقدمے میں ایک شخص قتل کرتا ہے اور اسی متاثرہ خاندان کا دوسرا فرد، قاتل کو معاف کردیتا ہے۔ ایسے میں مقتول کے قتل کی تفتیش میں کسی کو سزا ملنا نا ممکن ہوجاتا ہے۔
تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ بہت سے ایسے مقدمات بھی ہیں۔ جو رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتے یا اُنہیں خود کشی سمیت دیگر رنگ کے دیے جاتے ہیں۔
راجپر کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل معافی اور ناقابل راضی نامہ قرار دیا جائے تو ہی قانون کا خوف عوام میں پیدا کیا جاسکتا ہے۔