ہانگ کانگ: مظاہروں کا سبب بننے والا 'متنازع' بل واپس

پانچ ماہ سے جاری احتجاج کو ہانگ کانگ میں گزشتہ کئی دہائیوں کا سب سے بڑا بحران قرار دیا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

ہانگ کانگ کی حکومت نے پانچ ماہ سے جاری احتجاجی مظاہروں کا سبب بننے والا ملزمان کی چین حوالگی کا متنازع بل باضابطہ طور پر واپس لے لیا ہے۔ تاہم سیاسی حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس اقدام کے باوجود احتجاج ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ہانگ کانگ کے سیکریٹری سیکیورٹی جون لی نے بدھ کو ہانگ کانگ کی خود مختار اسمبلی میں بل واپس لینے کا باضابطہ اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بل سے ہانگ کانگ کا معاشرہ انتشار کا شکار ہوا۔ لہذٰا اسے فوری طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔

اس اعلان کے بعد اسمبلی میں موجود جمہوریت پسند قانون سازوں نے متعدد سوالات اٹھائے تاہم سیکریٹری سیکیورٹی نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔

'اب بہت دیر ہو چکی'

حکومت کے اس اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے پانچ ماہ سے احتجاج کرنے والے مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے دیگر مطالبات پورے نہیں ہو جاتے احتجاج جاری رہے گا۔

مظاہرین میں شامل 22 سالہ 'کونی' کا کہنا تھا کہ "بل واپس لینے اور اسے معطل کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ جب تک ہمارے دیگر مطالبات خاص طور پر پولیس کے ظالمانہ اقدامات کا ازالہ نہیں کیا جاتا، احتجاج جاری رہے گا۔"

مظاہروں کے دوران پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا تھا۔

یاد رہے کہ پانچ ماہ سے جاری احتجاج کے دوران پولیس مظاہرین پر آنسو گیس، مرچوں والا اسپرے، پانی کا چھڑکاؤ اور ربر کی گولیاں استعمال کرتی رہی ہے۔

مظاہرین نے احتجاج کے دوران ہانگ کانگ میں امریکہ اور برطانیہ کے سفارت خانوں کے باہر بھی مظاہرے کیے تھے۔ مظاہرین نے ان دونوں ملکوں پر زور دیا تھا کہ وہ ہانگ کانگ میں جمہوری اقدار کی بحالی کے لیے مداخلت کریں۔

ملزمان کی چین حوالگی کا بل کیا تھا؟

ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام نے رواں سال جون میں پارلیمان میں ایک بل پیش کیا تھا۔ جس کے تحت ہانگ کانگ میں سنگین جرائم کے مرتکب ملزمان کا ٹرائل چین میں کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

قانون کا اطلاق ہانگ کانگ اور چین کے شہریوں کے علاوہ ان غیر ملکیوں پر بھی ہونا تھا جو یا تو ہانگ کانگ میں مقیم ہوں یا جرم کے ارتکاب کے بعد وہاں چلے گئے ہوں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون ہانگ کانگ کو حاصل خصوصی آئینی استحقاق کی خلاف ورزی ہے اور ہانگ کانگ کے شہریوں کو چین کے حوالے کرنے سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔

مجوزہ قانون کے مخالفین کا الزام ہے کہ چین میں عدالتیں حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کے زیرِ اثر ہیں اور وہاں ملزمان پر تشدد، ان سے جبری اعترافِ جرم کرانے اور جیلوں میں ان کے ساتھ ناروا سلوک رکھے جانے کی شکایات عام ہیں۔

احتجاج شروع ہونے پر ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو نے اعلان کیا تھا کہ یہ قانون مر چکا ہے۔

ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام

ہانگ کانگ 1841 میں برطانیہ کی کالونی بنا تھا جس نے چین کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت 1997 میں علاقے کا کنٹرول دوبارہ چین کو سونپ دیا تھا۔

چین اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت ہانگ کانگ کی خود مختاری برقرار رکھی گئی ہے جس کے تحت علاقے کا اپنا آئین، منتخب اسمبلی، آزاد عدلیہ، فری مارکیٹ پر مبنی معاشی نظام اور اپنی کرنسی ہے۔

مظاہرین کے اب مطالبات کیا ہیں؟

ابتدائی طور پر مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ یہ قانون واپس لیا جائے۔ جون میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے ہانگ کانگ سٹی کے مختلف علاقوں حتٰی کے ایئر پورٹ تک پھیل گئے تھے۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے باعث متعدد افراد زخمی بھی ہوتے رہے ہیں۔ جب کہ متعدد افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔

ان واقعات کے بعد مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والے مظاہرین کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ چیف ایگزیکٹو کیری لام فوری طور پر مستعفی ہوں جب کہ جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔

چین کی حکومت چیف ایگزیکٹو کیری لام کی حمایت کرتی رہی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں یہ قیاس آرئیاں کی جا رہی تھیں کہ انہیں تبدیل کیا جا رہا ہے۔