ہانگ کانگ میں تعنیات چین کے فوجی دستوں کو ہفتے کے روز سڑکوں پر آنے کا حکم دیا گیا۔ تاہم، یہ حکم طویل عرصے سے جاری حکومت مخالف اور جمہوریت نواز مظاہرین کو روکنے کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد احتجاج کے نتیجے میں سڑکوں پر بکھرنے والے کوڑے کرکٹ کو صاف کرنا تھا۔
ہانگ کانگ اگرچہ چین کے کنٹرول میں ہے، تاہم اس کی حیثیت اب بھی ایک نیم خودمختار علاقے کی ہے۔ ہانگ کانگ طویل عرصے تک برطانوی تاج کے کنٹرول میں رہا۔ اس دوران، اسے بڑے پیمانے پر آزادیاں حاصل تھیں۔ معاہدے کے مطابق، چین نے 1997 میں ہانگ کا نگ کا کنڑول چین کے حوالے کر دیا تھا، جس کے بعد وہاں چین نے بتدریج اپنے کنٹرول میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔
کچھ عرصہ قبل ہانگ کانگ کی حکومت نے ایک قانونی مسودہ تیار کیا جس کا مقصد ہانگ کانگ کے باشندوں پر مقدمے چلانے کے لیے انہیں چین منتقل کرنے کی اجازت دینا تھا۔
اس قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے۔ اگرچہ ہانگ کانگ کی انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ وہ اس قانون کی جانب پیش رفت نہیں کرے گی، لیکن سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین اب جمہوری اصلاحات پر زور دے رہے ہیں۔
پانچ مہینوں سے جاری ان مظاہروں کے باعث کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے سے ہانگ کانگ کو بڑے پیمانے پر اقتصادی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور سب سے زیادہ نقصان سیاحت کے شعبے کو پہنچا ہے۔
ہفتے کے روز چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے اہل کار ہانگ کانگ کی سڑکوں پر صفائی کرتے دکھائی دیے۔ ہانگ کانگ میں چینی فوجی دستے شاذ و نادر ہی عوامی مقامات پر نظر آتے ہیں۔
ہانگ کانگ کے شہریوں نے ہفتے کے روز یہ منظر بڑی حیرت سے دیکھا کہ چینی فوجیوں کے ہاتھوں میں بندوقیں نہیں ہیں اور وہ جھاڑو لیے قطاروں میں بھاگ رہے ہیں اور جہاں انہیں کوڑا کرکٹ دکھائی دیتا ہے، اسے صاف کر رہے ہیں۔
صفائی کرنے کے زیادہ تر مناظر ہانگ کانگ کی بپٹسٹ یونیورسٹی کے اطراف میں نظر آئے جہاں اس ہفتے کے شروع میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے کے دوران مظاہرین نے ہانگ کانگ کی زیادہ تر یونیورسٹیوں پر قبضہ جمائے رکھا، تاہم، ہفتے کے روز وہ اپنا قبضہ چھوڑ کر واپس چلے گئے جس کے بعد وہاں صفائی کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔
ہانگ کانگ میں چین کے تقریباً دس ہزار فوجی تعینات ہیں۔ پانچ مہینوں سے جاری مظاہروں کے دوران چین کی جانب سے کئی بار یہ کھلی دھمکی دی جا چکی ہے کہ امن و امان کے قیام کے لیے وہ اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر سکتا ہے، جب کہ تکینکی اعتبار سے وہ یہ اقدام صرف ہانگ کانگ کی انتظامیہ کی درخواست پر ہی کر سکتا ہے۔