مئی 1997 میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے ایڈز کے مرض پر قابو پانے کے لیے آئندہ دس برسوں میں ایچ آئی وی وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری کے عزم کا اظہار کیا تھا ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ کے نیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ایک تحقیقی مرکزبھی قائم کیا گیا۔ ۔ دس برس کی مقررہ مدت گزر جانے کے بعد بھی ایڈز کی ویکسین تیار نہیں کی جا سکی۔تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس موذی مرض کے علاج میں انہیں کچھ اہم کامیابیا ں ضرور حاصل ہوئی ہیں
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت تین کروڑ افراد ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہیں۔ کچھ طاقتور ادویات اس وائرس سے انسانی مدافعتی نظام کو پہنچنے والا نقصان کم کر سکتی ہیں لیکن اس کے اثرات کو زائل کرنے یا ان سے بچانے والی ویکسین کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہوسکا ۔
ڈاکٹر گیری نیبل گزشتہ 12 سال سے اس ویکسین کو بنانے کے لیے قائم کیے گئے ویکسین ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ایڈز کا وائرس اتنی تیزی سے اپنی ہیئت بدلتا ہےکہ اس کا توڑ نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک تو یہ بات کہ جینیاتی طور پر یہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے انسان کا مدافعتی نظام اس کے خلاف پوری طرح لڑ نہیں پاتا۔
ایچ آئی وی وائرس کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ اس کی سطح پر موجود پروٹین مسلسل حرکت میں رہتے ہیں۔ جس میں شوگر کی ایک تہہ بھی ہوتی ہے۔ وائرس کی مسلسل حرکت کی وجہ سے انسانی مدافعتی نظام کے لیے اسے نشانہ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
لیکن گزشتہ ایک سال میں ماہرین کو کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ امریکہ کے ویکسین ریسرچ سینٹر نے اس وائرس کی کچھ کمزوریاں ڈھونڈ لی ہیں۔ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ افراد سے لیے گئے نمونوں میں وائرس کا ایک ایسا حصہ دریافت کیا گیا ہے جس میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر نابیل کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن نتائج توقع کے مطابق رہیں تو بھی حتمی کامیابی میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر گیری کہتے ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ اب ہم ماضی کے مقابلے میں بہترمقام پر کھڑے ہیں۔