رسائی کے لنکس

بچوں میں ایچ آئی وی ایڈز کا مرض، نئی مؤثر ادویات کی دریافت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بچوں میں ایچ آئی وی ایڈز کے مرض کے علاج پر تحقیق کا کام کرنے والے نامورپاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر کا انٹرویو

نمایاں انسانی خدمات انجام دینے والےپاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹرسہیل رانا 1980ء سے ہارورڈ کی فیکلٹی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اِس وقت وہ فُل پروفیسر ہیں اورپیڈیاٹرک ہمٹالوجی اور پیڈیاٹرک ایچ آئی وی سروس کے ڈائریکٹر ہیں۔

ڈاکٹر سہیل کا شعبہ بچوں کو ایچ آئی وی ایڈز سے بچانے کے لیے بڑی انسانی خدمت انجام دے رہا ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ اُن کی زیادہ تر پریکٹس اینمیا سمیت بچوں کے امراض میں ہے، جو مرض پاکستان ور بھارت میں بھی ہے، لیکن خصوصی طور پر افریقی امریکیوں میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ مرض اکئیٹر کے شمال میں یعنی نائجیریا، کیمرون، یہاں تک کہ سعودی عرب اور دوسرے علاقوں میں زیادہ ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ، ’میرا دوسرا اہم شعبہ بچوں اور نوجوانوں میں ایچ آئی وی انفیکشن کا علاج کرنا۔‘

اُنھوں نے کہا کہ وہ اِن دونوں شعبوں میں تحقیق کا کام کرتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ کافی عرصے سے کوششیں کی جارہی ہیں کہ ایچ آئی وی انفیکشن کےمرض کی نئی دوائیاں تلاش کی جائیں اور بہتر طریقے تلاش کیےجائیں جن کے باعث بچوں کا مزید مؤثر علاج ہوپائے۔ ’یہ معاملہ اُس وقت اور زیادہ اہم ہوجاتا ہے جب ایچ آئی وی سے متاثرہ کوئی خاتوں حاملہ ہوجائے۔ یہ بات ایک چیلنج کا درجہ رکھتی ہے کہ ہونے والے بچے کو کس طرح سے انفیکشن متقل ہونےسےبچایا جا سکتا ہے۔‘

ماضی کا ذکر کرتے ہوئے، ڈاکٹر سہیل رانا نے بتایا کہ پہلے اِس طرح تھا کہ 30فی صد بچے اپنی ماؤں سےمتاثر ہوتے تھے۔ لیکن اب ہونے والے کلینیکل ٹرائلز سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ اگر ماں باقاعدگی سے دوائیاں استعمال کرے تو بیماری کو منتقل ہونے سےمکمل طور پر روکا جاسکتا ہے۔

نئی ادویات کے باعث پچھلےچار سال سے کوئی بچہ ایسا نہیں دیکھا گیاجِس نے ماں سے انفیکشن لی ہو۔ اِس کے بر عکس، 25برس قبل ادویات کی ایسی سہولیات موجود نہیں تھیں۔ اب دوائیوں کے ذریعے ایچ آئی وی کو مکمل طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں 25 اضافی ادویات سامنے آئی ہیں جب کہ مزید نئی دوائیاں تیاریوں کے مراحل طے کر رہی ہیں۔

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG