امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع صدر کی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کو دُنیا میں طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ خوب صورت سبزہ زاروں سے گھری اور درجنوں کمروں پر مشتمل یہ تاریخی عمارت ماضی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھ چکی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق 1791 میں پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن نے امریکی صدر کی رہائش گاہ کے لیے جگہ کا انتخاب کیا تھا جہاں بعد میں وائٹ ہاؤس کی پرشکوہ عمارت تعمیر کی گئی۔
عمارت کا سنگِ بنیاد 1792 میں رکھا گیا۔ دنیا بھر سے فنِ تعمیر کے ماہرین سے عمارت کے ڈیزائن کے لیے تجاویز طلب کی گئیں جن میں سے آئر لینڈ کے ماہر تعمیرات جیمز ہوبن کا ڈیزائن منظور کیا گیا۔
وائٹ ہاؤس کا تعمیراتی کام آٹھ سال میں مکمل ہوا جس کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جان ایڈمز اور اُن کی اہلیہ اس عمارت میں سن 1800 میں منتقل ہو گئے۔
سن 1814 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی برطانیہ اور اس کے اتحادیوں سے جنگ کے دوران برطانوی افواج نے وائٹ ہاؤس کو آگ لگا دی جس کے بعد جیمز ہوبن کو ہی عمارت کو ازسر نو بحال کرنے کا ٹاسک سونپا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمارت کی دوبارہ تعمیر کے بعد 1817 میں اس وقت کے امریکی صدر جیمز منرو وائٹ ہاؤس منتقل ہوئے۔
منرو حکومت کے دوران 1824 میں وائٹ ہاؤس کا ساؤتھ بلاک تعمیر کیا گیا جب کہ صدر اینڈریو جیکسن کے دور میں 1829 میں عمارت کا شمالی بلاک تعمیر ہوا۔
انیسویں صدی کے اختتام پر عمارت کی توسیع کی متعدد تجاویز سامنے آئیں جب کہ عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے پر بھی غور کیا گیا۔ تاہم اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
سن 1902 میں تھیوڈور روزویلٹ نے عمارت میں بڑے پیمانے پر مرمت کا کام شروع کرایا۔ اسی دوران صدر کے دفتر کو وائٹ ہاؤس کے رہائشی حصے کی دوسری منزل سے نئے تعمیر ہونے والے ایگزیکٹو آفس (جسے اب ویسٹ ونگ کہا جاتا ہے) منتقل کر دیا گیا۔
روز ویلٹ کے دور میں ہونے والی تزئین و آرائش باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نیو یارک کی ایک معروف فرم 'میک کم میڈ اینڈ وائٹ' سے کرائی گئی۔
صدر روزویلٹ کے بعد صدر ولیم ہاورڈ ٹفٹ نے اوول آفس تعمیر کرایا۔ یہ بڑا مخروطی کمرہ اب امریکی صدر کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
روزویلٹ کی جانب سے کرائی گئی تعمیرات کو ابھی 50 برس بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ وائٹ ہاؤس کے تعمیراتی ڈھانچے میں کئی نقائص کی نشان دہی کی گئی جس کے بعد صدر ہیری ایس ٹرومین کے دور میں دوبارہ مرمت کا کام ہوا اور وائٹ ہاؤس کی بیرونی دیواروں کے علاوہ ساری عمارت کو منہدم کر کے ازسرِ نو تعمیر کیا گیا۔
امریکہ کے دوسرے صدر جان ایڈمز کے بعد منتخب ہونے والے تمام امریکی صدور نے وائٹ ہاؤس میں قیام کیا ہے اور اس تاریخی عمارت کے در و دیوار کئی اہم واقعات کے گواہ ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک کے رہنما امریکی صدور سے ملنے اس عمارت میں آتے ہیں جہاں کئی اہم معاہدے اور فیصلے کیے جاتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نہ صرف امریکی صدر اور اس کے اہلِ خانہ رہائش گاہ ہے بلکہ یہاں امریکی تاریخ سے متعلق ایک عجائب گھر بھی یہاں آنے والوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔
وائٹ ہاؤس کی چھ منزلہ عمارت میں 135 کمرے اور 35 بیت الخلا ہیں جب کہ اس تاریخی عمارت کے 412 دروازے، 147 کھڑکیاں اور تین لفٹس ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے اندر ایک چھوٹا سا اسپتال بھی قائم ہے جہاں 24 گھنٹے طبی عملہ صدر اور ان کے اہلِ خانہ اور عمارت میں کام کرنے والے افراد کو کسی ہنگامی حالت میں فوری طبی امداد دینے کے لیے موجود ہوتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے کچن میں بیک وقت 140 افراد کے لیے کھانا تیار ہو سکتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی بیرونی دیواروں کو پینٹ کرنے کے لیے 570 گیلن پینٹ درکار ہوتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کو تاریخ کے مختلف مواقع پر کبھی صدارتی محل اور صدارتی گھر اور ایگزیکٹو مینشن بھی کہا جاتا رہا ہے۔
سابق امریکی صدر روزیلٹ نے اسے 1901 میں سرکاری طور پر وائٹ ہاؤس کا نام دیا۔
وائٹ ہاؤس کی سیکورٹی
صدر کی رہائش گاہ اور دفتر کا درجہ ہونے کے باعث وائٹ ہاؤس کی سیکیورٹی کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
سن 1812 سے 1814 تک امریکہ کے صدر رہنے والے جیمز میڈی سن نے وائٹ ہاؤس کی سیکیورٹی کے لیے 100 سیکیورٹی اہلکاروں پر مشتمل دستہ تعینات کیا جب کہ عمارت کے شمالی دروازے پر بھی سیکیورٹی کے لیے رضا کار تعینات کیے گئے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاؤس کی سیکیورٹی میں اضافہ ہوتا رہا۔
مارچ 1970 میں امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا جس میں وائٹ ہاؤس میں تعینات پولیس کو 'ایگزیکٹو پروٹیکٹیو سروس' کا نام دیا گیا۔
امریکہ میں نائن الیون حملوں کے بعد وائٹ ہاؤس کی سیکیورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا۔ وائٹ ہاؤس اور اس کے اطراف کو نو فلائی زون قرار دیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں سیکرٹ سروس کے لگ بھگ 3200 ایجنٹس جب کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس 1300 کے قریب اہلکار تعینات ہیں۔
امریکہ آنے والے سیاح واشنگٹن ڈی سی میں واقع اس تاریخ عمارت کے باہر تصاویر کھنچواتے ہیں جب کہ انتظامیہ سے ناخوش افراد اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے بھی یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔