مغل دور میں جامع مسجد دہلی کے نیچے مورتیاں دبانے کا دعویٰ، کھدائی کا مطالبہ

جامع مسجد دہلی (فائل فوٹو)

بنارس کی گیان واپی مسجد تنازع کے بعد نئی دہلی کی تاریخی جامع مسجد کے معاملے پر بھی ایک نئے تنازع نے جنم لیا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی جانب سے مسجد کی کھدائی کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔

آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے قومی صدر سوامی چکرپانی مہاراج نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ اُمت شاہ کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب کے حکم پر جامع مسجد کے زینوں کے نیچے مورتیاں دبائی گئی تھیں۔

اُن کا دعویٰ ہے کہ اورنگزیب کی فوج کے سینئر جنرل خان جہاں بہادر، جودھپور اور دیگر علاقوں میں ہندو عبادت گاہوں کو مسمار کرکے لوٹے تو اورنگزیب نے دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کو دہلی کی جامع مسجد کے زینوں کے نیچے دبانے کا حکم دیا تھا۔

اُنہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان مورتیوں کو برآمد کرنے کے لیے جامع مسجد کی کھدائی کی ضرورت ہے تاکہ مورتیوں کی پھر سے پوجا کی جا سکے۔ اس کے لیے وزیرِ اعظم سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ متعلقہ محکمے کو ہدایت کریں۔

اسی دوران اترپردیش میں متھرا کی ایک ضلعی عدالت نے شری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ کو شاہی عیدگاہ مسجد پر مالکانہ حق سے متعلق اپیل دائر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجد مندر کو توڑ کر تعمیر کی گئی تھی۔وہاں 13.37 ایکڑ اراضی پر مالکانہ حقوق کا تنازع ہے۔ دونوں عمارتیں ایک دوسرے سے متصل ہیں۔

ریاست اترپردیش کی مختلف عدالتوں میں اس بارے میں درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ درخواست گزاروں کی جانب سے شاہی عیدگاہ مسجد میں نماز پر پابندی لگانے کے مطالبے کے بعد ریاست کے آٹھ اضلاع میں ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔


ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (آگرہ زون) راجیو کرشن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ متھرا سمیت آٹھ اضلاع اور متنازع مقام پر بھی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں۔

ادھر محکمہ آثارِ قدیمہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل دھرم ویر شرما نے دعویٰ کیا ہے کہ دہلی کا قطب مینار دراصل شمسی ستون یا شمسی تجربہ گاہ ہے جسے قطب الدین ایبک نے نہیں بلکہ ایک ہندو راجہ وکرمادتیہ نے تعمیر کروایا تھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں کئی ثبوت پیش کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

دریں اثنا سپریم کورٹ نے بنارس کی گیان واپی مسجد کے معاملے کی سماعت جمعے تک ملتوی کر دی اور بنارس کی سول عدالت کو ہدایت کی ہے کہ جب تک وہ اس پر سماعت نہیں کرتی وہ بھی اپنی سماعت روک دے اور کوئی حکم صادر نہ کرے۔

بنارس کی انجمن انتظامیہ مسجد کے وکیل حذیفہ احمدی نے عدالت سے کہا کہ بنارس کی گیان واپی مسجد کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر مساجد کو سیل کرنے کی متعدد درخواستیں ملک کی عدالتوں میں داخل کی جا رہی ہیں۔ ادھر گیان واپی مسجد کے وضو خانہ کے پاس کی ایک دیوار گرانے کی اپیل پر بھی سماعت ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ سینئر وکیل کی خرابی صحت کی بنیاد پر سماعت کو ملتوی کرنے کی درخواست کی مخالفت نہیں کر سکتے لیکن یہ حلف لیا جانا چاہیے کہ ہندو عقیدت مند سول کورٹ کی کارروائی کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔

اس پر ہندو فریق کے وکیل نے کہا کہ وہ عدالت کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہندو فریق بنارس کی سول عدالت میں کارروائی کو آگے نہیں بڑھائے گا۔

سپریم کورٹ نے منگل کے روز اس معاملے پر سماعت کرتے ہوئے بنارس کی ضلع انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ جس جگہ پر ہندو مذہب کی علامت شیو لنگ پائے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اس کی حفاظت کی جائے اور مسلمانوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے نماز کی ادائیگی کی اجازت دی جائے۔

SEE ALSO: بھارت: بنارس کی گیان واپی مسجد میں’ شیو لنگ‘ ملنے کے دعوے پر وضوخانہ سیل کرنے کا حکم


قبل ازیں بنارس کی سول عدالت کے حکم پر گیان واپی مسجد کے سروے اور ویڈیوگرافی کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مسجد کے وضو خانہ کے حوض کے اندر شیو لنگ پایا گیا ہے۔ اس پر مقامی عدالت نے اس جگہ کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس حکم کے بعد وضو خانے کو چاروں طرف سے ڈھانپ کر اسے سیل کر دیا گیا ہے۔

مسلم فریق نے اس دعوے کو گمراہ کن قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جس چیز پر شیو لنگ ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ دراصل فوارہ ہے۔

مقامی عدالت نے نمازیوں کی تعداد پر بھی پابندی لگا دی تھی اور کہا تھا کہ صرف 20 افراد ہی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس پابندی کو ختم کر دیا۔

رپورٹس کے مطابق اس نئی صورت حال کے بعد مسجد کی ووسری جانب مبینہ طور پر شیو جی کی سواری نندی (بیل) کے مجسمے کی زیارت اور پوجا کرنے والوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔ ہندو فریق کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ نندی اور حوض کے درمیان واقع دیوار کو منہدم کر دیا جائے۔ اسی طرح گیان واپی مسجد میں نماز ادا کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔

مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ پہلے وہاں 20/25 افراد ہی باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے پہنچتے تھے لیکن اب ان کی تعداد 200سے 500 تک پہنچ گئی ہے۔

ادھر عدالت کی جانب سے گیان واپی مسجد کا سروے کرنے کے لیے مقرر کردہ ایڈووکیٹ کمشنر وشال سنگھ نے اپنی رپورٹ عدالت میں داخل کر دی ہے۔

دوسری طرف عدالت کی جانب سے مقرر کردہ پہلے ایڈووکیٹ کمشنر اجے مشرا نے بھی اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ متنازع حصے کے بیرونی مقام پر مسمار شدہ مندر کے کھنڈرات پائے گئے ہیں جن میں دیوی دیوتاؤں کے مجسمے اور مورتیاں ہیں۔

خیال رہے کہ گیان واپی مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے اجے مشرا پر جانب داری کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔

لیکن بعد میں ایک اور کمشنر وشال سنگھ نے عدالت میں ان کے رویے کی شکایت کی جس پر عدالت نے انہیں کمشنر کی ذمہ داری سے الگ کر دیا تھا۔ لیکن انہوں نے جو سروے کیا تھا اس کی رپورٹ عدالت میں انہوں نے پیش کی ہے۔

بابری مسجد تنازعے بھی بھارتی سیاست میں عرصۂ دراز سے موضوع بحث ہے۔

بھارتی مسلمانوں کے ایک وفاقی فورم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے گیان واپی مسجد میں سروے کو ناانصافی اور خلاف قانون قرار دیتے ہوئے اس معاملے میں قانونی کارروائی کرنے کے لیے وکلا اور ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو 1991 کے عبادت گاہ قانون کی روشنی میں مقدمے کی پیروی کرے گی۔

یاد رہے کہ 1991 کے قانون میں کہا گیا ہے کہ15 اگست 1947 کو جو عبات گاہ جس شکل میں تھی وہ اب اسی شکل میں رہے گی۔ کسی ایک مذہب کی عبادت گاہ کو دوسرسے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکے گا۔ اس سلسلے میں جو بھی مقدمات ہیں وہ کالعدم ہو گئے اور اب کوئی نیا مقدمہ بھی دائر نہیں کیا جا سکتا۔

ایودھیا کی بابری مسجد کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور مذکورہ کمیٹی کے ایک ممبر کمال فاروقی کا کہنا ہے کہ ایسے میں جبکہ گیان واپی سے متعلق ایک معاملہ اعلیٰ عدالت میں ہے، مقامی عدالت کی جانب سے سماعت کرنا اور ہدایات دینا مناسب نہیں ہے۔

ان کے مطابق بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ گیان واپی مسجد کا مسئلہ بھی بابری مسجد کی طرح بننے والا ہے۔ لیکن ان کے بقول اس کی وجہ سے صورتِ حال اس سے کہیں زیادہ ابتر ہونے والی ہے۔

متعدد ماہرین قانون نے بھی مقامی عدالت کی کارروائی پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک 1991 کا قانون ہے ایسی کوئی کارروائی قانونی نہیں ہو گی۔

کمال فاروقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مذکورہ قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اگر وہ قانون ختم ہو جاتا ہے تو پھر ملک میں کوئی مسجد نہیں بچے گی۔ ہندوؤں کی جانب سے ہر مسجد پر دعویٰ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اب دہلی کی جامع مسجد پر بھی دعویٰ کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہیں روکا گیا تو صورتِ حال بہت خراب ہونے والی ہے۔ تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ملک کی عدالتِ عظمیٰ ایسی صورتِ حال پیدا نہیں ہونے دے گی اور مذکورہ قانون کا تحفظ کیا جائے گا۔