|
"سرخ رنگ کا گاؤن اور گریجو ایشن کی روائتی کیپ پہن کر ہزاروں لوگوں کی تقریب میں اسٹیج پر ہائی اسکو ل ڈپلوما حاصل کرنے کا میرا وہ خواب جو میں کئی برس سے دیکھ رہی تھی ابھی کل ہی پورا ہوا ہے ۔ یہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت اور اہم ترین لمحہ تھا۔"
یہ الفاظ تھے امریکی ریاست ٹکساس کی ایک ہائی اسکول گریجوایٹ مریم حسین کے جن کا کہنا تھا کہ ہائی اسکول گریجو ایشن کی تقریب ہر سال امریکہ بھر کے اسٹوڈنٹس کے لیے وہ خوشگوار لمحات فراہم کرتی ہے جو عمر بھر کے لیے ایک خوبصورت یاد بن کر ان کے ذہنوں میں اور اس موقع پر لی گئی خوبصورت تصایر اور ویڈیوز میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہے ۔
دنیا بھرکی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بیچلرز اور ماسٹرز کی تعلیم کی تکمیل کے بعد طالبعلموں کے لیے ان کے ادارے ان کی ڈگریاں دینے کے لیے پر وقار تقریبات یا کانووکیشنز کا اہتمام کرتے ہیں.
لیکن یہ صرف امریکہ یا دنیا کے چندہی ملکوں کی روایت ہے کہ طالبعلموں کے لیے ہائی اسکول یا نویں گریڈ سے بارہویں گریڈ تک کی چار سالہ تعلیم مکمل کرنے پر بھی گریجو ایشن کی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ جب کہ مڈل اور پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرنے پر بھی اسکولوں میں گریجو ایشن کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
ہائی اسکول گریجوایشن کی تقریب کی ایسی ہی کہانی سائپرس کریک ہائی اسکول ہیوسٹن ٹکساس کے آنرز اسٹوڈنٹ ایشان قمر نے سنائی جنہیں تقریب میں باسکٹ با ل پلئیر کے طور پر بھی سراہا گیا ۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایشان کا کہنا تھا، جب میں اپنانام پکارے جانے پر ہزاروں لوگوں کی تالیوں اور داد و تحسین کے شور میں اپنا ڈپلومہ لینے کے لیے اسٹیج کی چند سیڑھیاں طے کر رہا تھا تو مجھے لگا کہ میں اپنے شاندارمستقبل کی سیڑھیوں کو عبور کررہا ہوں اورجب میں ڈپلومہ لے رہا تھا تو لگا کہ میں نے ڈپلومہ نہیں بلکہ الہ دین کا چراغ حاصل کرلیا ہے جو مجھے اپنی زندگی کی ہر خواہش پوری کرنے میں کام دے گا۔
لیکن انہوں نے کہا" جب میں ڈپلوما لے کراسٹیج کی دوسری جانب گی سیڑھیوں سے نیچے اترا تو میں تھوڑا سا اداس ہوا یہ سوچ کر کہ اب میرا اس اسکول سے،ساتھیوں سے اور اساتذہ سے ناطہ بر قرار نہیں رہے گا۔"
لیکن ابقول انکے جب میں واپس اپنی سیٹ پر آکر بیٹھا اور میں نے مڑ کرحاضرین میں بیٹھے اپنے والدین ، اپنی دادی ، اپنی بہن اور بھائی کی آنکھوں میںجس خوشی اور فخر کو دیکھا تو میری اداسی کا وہ مختصر لمحہ ایک بار پھر کامیابی اور خوشی کے مکمل احساس سے بھر گیا۔
ہارمنی اسکول آف انوویشن شوگر لینڈ کےایک اور ہائی اسکول گریجوایٹ مزمل آصف ظہیر تھے۔ وی او اے سے ٹیلی فون پر ایک فیملی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ کہ وہ اپنی تعلیمی زندگی کی پہلی سیڑھی عبور کرنے پر بہت خوش تھے لیکن انہوں نے اس موقع کو بہت سادگی سے منانے کو ترجیح دی کیوں کہ ان کے ایک بہت ہی قریبی فلسطینی دوست اپنے آبائی ملک میں ہونےوالے المناک واقعات کی وجہ سے بہت صدمے میں تھے اور میں ان کو اداس دیکھ کر کیسے خوش رہ سکتا تھا یا خوشی منا سکتا تھا ۔
"بس اس لیے ہم نے صرف اپنے والدین ، گرینڈ پیرنٹس اور اپنے دھدھیال اور ننھیال کے ساتھ ہی تقریب میں شرکت کی اور بعد میں انہی کے ساتھ گریجو ایشن ڈنر کر کے اس دن کو منایا۔"
ان کی والدہ ام ہانی نے کہا کہ یہ میرے لیے انتہائی خوشی کا موقع تھا اور میں خدا تعالی کی مشکور تھی کہ اس نے مجھے اپنے بیٹے کی یہ خوشی دیکھنے کے لیے زندگی اور موقع فراہم کیا۔کیوں کہ جب اسی سرزمین پر میں نے ہائی اسکول گریجوایشن کی تو میری والدہ زندہ نہیں رہی تھیں اور ہمارے خاندان کو اس وقت ان تقریبات اور یہاں کے کلچر کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں تھا ، تو بس بہت سادگی سے میری گریجو ایشن ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا" اور اب میں چاہتی تھی کہ میں اپنے بیٹے کی اس خوشی کو اس تقریب کی روح کے ساتھ مناؤں ۔ لیکن مزمل کا اصرار تھا کہ وہ ایسا نہیں کر پائے گا ۔ پھر بھی اس نے میری خاطر اس تقریب کو خوشی سے منانے کی کوشش کی۔"
ہیوسٹن کے ٹریوس ہائی اسکول رچمنڈ کی مریم حسین نے کہا کہ یہ میر ے لیے اور میرے والدین اور میرے سارے خاندان کے لیے ایک انتہائی خوشی کا موقع تھا۔ خاص طور پر ایک اچھے جی پی اے اور ییلو کورڈ کے ساتھ ڈپلومہ لینے کے لیے اسٹیج پر جانا ، اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ گریجو ایشن واک کرنا اور پھر اسٹیج پر تالیوں اور اپنے خاندان کی مریم ۔ مریم کی بلند آوازوں کے دوران ڈپلومہ لینے کا لمحہ میں کبھی نہیں بھو ل سکتی
"تقریب کے بعد اپنے رشتے داروں کی جانب سے مجھے پھولوں کے گلدستوں سے بھر دینا اور میری امی کا خوشی کے کھلتےچہرے کے ساتھ مجھے گلے لگانا، ان سب نے مجھے نہال کر دیا ۔"
مریم حسین کی والدہ ابیار اعجاز نے وی او اواے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مریم کا ننھیال اور ددھیال سب امریکہ ہی میں ہیں اور وہ سب دوسری ریاستوں سے اس تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے تو ہمارے لیے تو یہ عید کے تہوار جیسا موقع تھا۔
اسٹیڈیم کی تین پوری قطاروں پر مریم کی نانی نانا ، دادی دادا، خالائیں ، پھوپھیاں، کزنز سب موجود تھے اور سب نے دل کھول کر مریم کو ہی نہیں اسٹیج پر آنے والے ہر طالب علم کو تالیوں اور بلند شور کے ساتھ سراہا اور وہاں موجود ہزاروں لوگوں کے ساتھ خوب دل کھول کر قہقہے لگائے ۔
مریم کا کہنا ہے میں بہت ایکسائٹڈ تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسکول اور اپنی دوستوں کو چھوڑنے کے احساس نے مجھے کچھ اداس بھی کر دیا تھا۔لیکن پھر شام کو اپنی فیملی اور اپنی دوستوں کے ساتھ گریجو ایشن پارٹی نے اس خوشی کو بر قرار رکھنے میں مدد دی۔
" یہ ڈپلوما کاغذ کا کوئی عام ٹکڑا نہیں بلکہ یہ ایک بہتر زندگی اور بہتر مواقع کی پہلی ضمانت بھی ہوتا ہے ۔ اپنی پیاری مریم کو سرخ گاؤن میں ایک شاندار تقریب میں اعتماد کے ساتھ کامیابی کی سیڑھی پر قدم رکھتے دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ میری گڑیا ، جو کل تک میری گود میں کھیلتی تھی، واقعی آج بڑی ہو گئی ہے۔ "
یہ کہنا تھا مریم کے والد اور ا یک کمپیوٹر سائنٹسٹ عمر حسین کا ۔
انہوں نے کہا کہ گریجوایشن کی تقریب ہماری زندگی کا ایک اہم ترین اور خوشگوار ترین دن تھا ، کیوں یہ دن اس بات کا ضامن تھا کہ اس نے اپنے شاندار مستقبل کی پہلی سیڑھی عبور کر لی ہے اور اب اس کے لیے ایک بہتر مستقبل کے راستے پر چلنا آسان ہو گیا ہے ۔ اور اس سرزمین کے یہ ہی وہ مواقع ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے ہم نےاپنے آبائی وطن پاکستان کو چھوڑا تھا۔
عمر حسین نے کہا کہ ہائی اسکول گریجو ایشن کی تقریب در اصل وہ موقع ہوتا ہے جو والدین کو یہ احساس دلاتاہے کہ ان کے بچے نہ صرف اب بڑے ہو گئے ہیں بلکہ اب وہ اپنے مستقبل کی زندگی کے لیے تیار ہو گئے ہیں، اب وہ یا تو اپنی تعلیم کو آگے بڑھائیں گے یا پھر کوئی جاب کریں گے کیوں کہ امریکہ میں عمو ماً کسی بھی جگہ ملازمت کے لیے ہائی اسکول کی گریجوایشن لازمی ہوتی ہے ۔
مریم کے والد عمر حسین کی طرح ایشان کے والد نعمان قمر نےبھی کہا کہ یہ تقریب میرے لئے ایک اہم تقریب تھی ہم نے اسے ایک تہوار کی طرح منایا ۔ اس سے قبل ہم اپنی بیٹی اور ایک اور بیٹے کی گریجوایشن کو بھی اسی طرح مناچکے ہیں ۔
انہوں نے کہا ۔ ایشان پاکستانی امریکیوں کی اس جنریشن سے تعلق رکھتا ہے جو امریکہ ہی میں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی ۔ اس جنریشن کے لیے فیملی سپورٹ سسٹم تو اگرچہ بہت مضبوط ہوتا ہے ۔ انہیں مالی اور سماجی طور پر ایک مستحکم ماحول ملتا ہے لیکن عملی زندگی میں بہتر مواقع کے لیے بہت زیادہ مسابقت اور کمپٹیشن کا بھی سامنا ہوتا ہے ۔
ان دنوں بہت سے اسکولوں میں مڈل اسکول گریجوایشن کی تقریبات بھی ہورہی ہیں۔ سین فرانسسکو میں مڈل اسکول گریجوایشن کرنے والی طالبہ مریم عمران نے وی او اے سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال اپنے بھائی کی ہائی اسکول کی گریجوایشن کی تقریب دیکھ کر میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں بھی اسی طرح گاؤن پہن کر اسٹیج پر جاؤں اور مجھے مڈل اسکول کی گریجوایشن کی تقریب میں جلد ہی یہ موقع مل گیا ۔
میں بہت خوش ہوں اور میری فیملی بھی ۔ اس تقریب کے بعد میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں جلد سے جلد ہائی اسکول کی گریجوایشن کروں اور ایک بار پھر ایسی ہی ایک اچھی سی تقریب میں اپنا ہائی اسکول ڈپلوما حاصل کروں جیسا کہ میرے بھائی نے گزشتہ سال حاصل کیا تھا۔
مریم عمران کے والد عمران حسین نے جو ایک سوفٹ وئیر انجنئر ہیں وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی اسکولوں میں پرائمری سے لے کر مڈل اورہائی اسکولوں کی گریجوایشن کی تقاریب بچوں کو اپنی کامیابیوں کے ہر مرحلے پر خوشیاں منانے کا موقع فراہم کرتی ہیں بلکہ ان میں آگے بڑھنے کا نیا جذبہ پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں ۔
تاہم ایشان کے والد نعمان قمر نے ایک اہم نکتے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہائی اسکولوں کی گریجو ایشن کی تقاریب میں طالبعلموں کی ہر سال بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی کامیابیوں کی فہرست دیکھ کر یہ احساس بھی اجاگر ہوتا ہے کہ ہم جیسے امیگرینٹ خاندانوں کے بچوں کو اب امریکہ کی مین اسٹریم میں شامل ہوتے ہوئے ذہین اور محنتی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے مقابلےکا سامنا ہو گا اور ان کی آئندہ کی زندگی سخت سے سخت تر مقابلے اور مسابقت سے پر ہوگی جس کے لیےانہیں مزید محنت اور ہماری مزید سپورٹ کی ضرورت ہو گی ۔
ایشان کی والدہ حنا قمر جو پیدا تو پاکستان میں ہوئی تھیں لیکن جب وہ بہت چھوٹی تھیں تو اپنے والدین کے ساتھ امریکہ آگئی تھیں اور یہیں پلیں بڑھیں اور اپنی ہائی اسکول اور کالج کی گریجوایشنز کی تقریبات کی یادیں آج بھی ان کی خوشگوار ترین یادوں کا حصہ ہیں ۔ جب ان سے پوچھا کہ آج سے بیس سال قبل اور آج کی ہائی اسکولوں کی گریجو ایشن میں انہیں کیا فرق نظر آتا ہے تو انہوں نے کہا کہ ، ٹکنالوجی۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے ہائی اسکول گریجوایشن کی تھی تو اس وقت لو گ اپنے بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز بنانے کے لیے بڑے بڑے کیمرے ساتھ لاتے تھے ،ہر فیملی کے پاس صرف ایک کیمرہ ہوتا تھا اور ڈپلوما وصول کرنے سے پہلے اور اس دوران اپنے بچوں کی تصاویر اور ویڈیو بنانے کے لیے خوب بھاگ دوڑ ہوتی تھی۔ لیکن اب ہال یا اسٹیڈیم میں ہر ایک اپنے فون پر زوم کر کے اپنے اپنے حساب سے یہ کام کررہے ہوتے ہیں۔ اسٹیج بھی پہلے سے زیادہ خوبصورت انداز سے سجائے جاتے ہیں ۔ تو ٹکنالوجی کا فرق ہے ۔ باقی تو سب کچھ وہی ہے ۔
امریکہ میں ہائی اسکول گریجو ایشن کی تقریبات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ۔ یہ تقریبات عام طور پر مئی کے پہلے ہفتے سے جون کے پہلے ہفتے تک منعقد کی جاتی ہیں جن میں ان کے والدین اور عزیزوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے ۔ اس لیے یہ صرف طالبعلموں کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کے والدین اور عزیز رشتے داروں کے لیے بھی ایک تہوار کی اہہمیت رکھتی ہیں اور اس میں شرکت کے لیے وہ دور دراز ریاستوں سے سفر کر کے تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔
اسکولز ان تقاریب کی تیاریاں بہت پہلے سے شروع کر دیتے ہیں ۔طالبعلموں کے لیے خصوصی گاؤن اور ان کی گریجو ایشن کیپس اور اسٹیج اور وینیو کا انتخاب اور پھر تقریب کی پہلے سے ریہرسل سب کچھ بڑے جوش و خروش سے ہوتا ہے ۔
ایشان کے والد نعمان قمر کا کہنا تھاکہ ہائی اسکول کی گریجوایشن سے گریجویٹس اور ان کے والدین دونوں ہی ایک نئے جذبے سے اگلے مرحلے کی طرف بڑھنے کی تحریک لےکر رخصت ہوتے ہیں۔