پاکستان میں روا ں برس ہیٹ ویوز اور مون سون میں شدید بارشوں کا امکان

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا ہے کہ ملک کے شمالی علاقوں میں تیزی سے برف پگھلنے اور گلیشیئرز پر بننے والی جھیلوں کے پھٹنے سے قیمتی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ہے۔

ادھر محکمہ موسمیات نے بھی ملک بھر میں آئندہ چند روز کے دوران گرمی کی شدید لہر اور لو چلنے کی پیش گوئی کی ہے اور شہریوں کو احتیاط برتنے کا کہا ہے۔

اپنے حالیہ بیان میں شیری رحمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور متعلقہ حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کے بیشتر حصوں میں مون سون کی معمول سے زیادہ بارشوں کے ممکنہ تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لیے تمام تر پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

یاد رہے کہ جنوبی ایشیائی موسمیاتی آؤٹ لک فورم کی 22 ویں سالانہ رپورٹ کے مطابق خیبزپختونخوا کے جنوبی حصوں شمال مشرقی بلوچستان اور اس سے ملحقہ جنوب مغربی پنجاب میں مون سون بارشیں رواں برس معمول سے زیادہ ہوں گی۔

شیری رحمان کے مطابق بعض علاقوں میں کم بارشوں کے باعث تھرپارکر اور عمر کوٹ کے اضلاع میں خشک سالی جیسی صورتِ حال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔

ملک کے دیگر علاقوں کی طرح گلگت میں انتظامیہ نے درجۂ حرارت میں اضافے کے پیشِ نظر عوام کو پہاڑی علاقوں کا سفر کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جمعے کو جاری کی گئی وارننگ میں لینڈ سلائیڈنگ، ندی نالوں میں طغیانی اور دریاؤں کے قریب رہائش پذیر افراد کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو الرٹ جاری کر دیا

محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو الرٹ جاری کرتے ہوئے آنے والے دنوں میں پورے ملک میں درجۂ حرارت معمول سے زیادہ ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محکمہ موسمیات کے ترجمان ظہیر احمد بابر کا کہنا ہے کہ معمول سے زیادہ درجۂ حرارت سے مراد یہ ہے کہ درجہ حرارت 7 سے 9 سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔ صوبہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے بعض حصوں میں یہ 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ سکتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ موجودہ ہیٹ ویو پانی کی کمی کا سبب بن سکتی ہے جس کے باعث باغات اور فصلیں بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

ظہیر احمد بابر کے مطابق ایسے حالات میں شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ پانی کا استعمال اور بلا ضرورت گھروں سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 2015 میں گرمی میں شدت گرمی کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عموماً ہیٹ ویوز مئی یا جون میں آتی ہیں۔ لیکن اس مرتبہ مارچ سے ہی گرمی نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا۔

محکمہ موسمیات کے مطابق اس برس اپریل کا مہینہ 1961 کے بعد سب سے گرم ترین ماہ رہا جب کہ مارچ میں بھی اوسط درجۂ حرارت ماضی کے مقابلے میں زیادہ رہا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کا زراعت پر اثر

زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زراعت پر بھی گہرا اثر پڑ رہا ہے اور مختلف اجناس کی پیداوار میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

زرعی ماہر ڈاکٹر عارف گوہیر کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کی زرعی پیداوار میں 15 سے 20 فی صد کمی ہوئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ موسم کی شدت کے باعث رواں برس گنے اور سورج مکھی کی فصلوں میں کمی کے علاوہ جانوروں کے چارے کی بھی قلت ہو سکتی ہے۔

عارف گوہیر کے مطابق پھلوں کے حوالے سے پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر دارودمدار کینو اور آم پر ہوتا ہے۔ تاہم گزشتہ دنوں ملتان اور نواحی علاقوں میں آندھیوں اور جھکڑ چلنے کے باعث آم کی فصل بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

اُن کے بقول گرمی کی شدت کے باعث ایسے حالات میں فصلوں اور درختوں کو زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر مناسب وقت اور مقدار میں پانی فراہم نہ کیا جائے تو ان کی پیداوار بھی کم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔