امریکی الیکشن مہم کا اہم لمحہ؛ ہیرس اور ٹرمپ منگل کو صدارتی مباحثے میں مدِ مقابل ہوں گے

الیکشن سے قبل ہونے والے پولز کے مطابق دونوں اُمیدواروں کے درمیان کانٹے کے مقابلے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

  • کاملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان منگل کی شب صدارتی مباحثہ ہو رہا ہے۔
  • امریکی نشریاتی ادارہ 'اے بی سی نیوز' اس مباحثے کا اہتمام کر رہا ہے۔
  • مباحثے کے لیے 90 منٹ رکھے گئے ہیں جس کے قواعد جون میں بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والے مباحثے جیسے ہی ہوں گے۔
  • 'نیو یارک ٹائمز' سینا کالج سروے کے مطابق منگل کی شب ہونے والا مباحثہ دونوں اُمیدواروں بالخصوص کاملا ہیرس کے لیے زیادہ اہم ہے۔
  • دونوں صدارتی اُمیدار مختلف انٹرویوز اور بیانات میں ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

ڈیمو کریٹک صدارتی اُمیدوار کاملا ہیرس اور ری پبلکن اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان صدارتی مباحثے کے لیے تیاریاں مکمل ہیں۔ منگل کی شب ہونے والے اس مباحثے کو نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔

دونوں اُمیدواروں کے درمیان اس سے قبل کبھی بالمشافہ ملاقات یا ٹیلی فون پر بات نہیں ہوئی۔ لیکن منگل کی شب دونوں فلاڈیلیفا کے نیشنل کانسٹی ٹیوشن سینٹر میں ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوں گے۔

مباحثے کے لیے 90 منٹ کا وقت مقرر کیا گیا ہے جس میں 'اے بی سی نیوز' کے ڈیوڈ مویئر اور لِنسی ڈیوس دونوں اُمیدواروں سے سوالات کریں گے۔

لاکھوں امریکی شہری اس مباحثے کو دیکھیں جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ دونوں اُمیدواروں کے درمیان واحد مباحثہ ہو گا۔ یہ صدارتی مباحثہ انتخابات سے آٹھ ہفتے قبل ہو رہا ہے جب کہ کچھ ریاستوں میں 'ارلی ووٹنگ' میں بھی چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں۔

الیکشن سے قبل ہونے والے پولز کے مطابق دونوں اُمیدواروں کے درمیان کانٹے کے مقابلے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مباحثے کو دونوں اُمیداروں کے لیے اُن ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے جو تاحال کسی اُمیدوار کی جانب جھکاؤ نہیں رکھتے۔

جولائی میں صدر بائیڈن نے انتخابی مہم سے دست برداری کا اعلان کرتے ہوئے کاملا ہیرس کو صدارتی اُمیدوار بنانے کی حمایت کی تھی۔ یہ اعلان جون کے آخر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والے صدارتی مباحثے میں متاثر کن کارکردگی نہ دکھانے کے بعد سامنے آیا تھا۔ جب بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم ختم کی تو اس وقت وہ رائے عامہ کے جائزوں میں ڈونلڈ ٹرمپ سے پیچھے تھے۔

کاملا ہیرس کو اُمیدوار بنانے کے ساتھ ہی ڈیمو کریٹک پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں نے بھی اُن کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا جس کے بعد رائے عامہ کے کئی جائزوں میں وہ ڈونلڈ ٹرمپ سے دو سے تین فی صد آگے ہیں۔

اتوار کو 'نیو یارک ٹائمز' سینا کالج کی جانب سے جاری کیے گئے ایک سروے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 47.48 فی صد کی برتری کے ساتھ دکھایا گیا ہے، تاہم تین بیٹل گراؤنڈ ریاستوں وسکونسن، مشی گن اور پینسلوینیا میں ہونے والے کئی پولز میں کاملا ہیرس ٹرمپ سے آگے ہیں۔ بیٹل گراؤنڈ ریاستوں سے مراد وہ ریاستیں ہیں جو انتخابی نتائج میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔

جائزوں کے مطابق ایریزونا، جارجیا، نیواڈا اور نارتھ کیرولائنا میں دونوں اُمیدواروں کے درمیان برابر کا مقابلہ ہے۔

ان سات ریاستوں کے انتخابی نتائج مجموعی نتائج کا تعین کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں کیوں امریکہ میں صدر اور نائب صدر کا اُمیدوار کو قومی سطح پر ملنے والے پاپولر ووٹ کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ریاستی سطح پر مقابلہ ہوتا ہے۔ یعنی ملکی سطح پر مجموعی طور پر زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا اُمیدوار مطلوبہ الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کر پائے تو وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔

امریکی صدارتی انتخابات میں دو ریاستوں کے علاوہ دیگر تمام ریاستوں میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے اُمیدوار کے کھاتے میں سارے الیکٹورل ووٹ ڈال دیے جاتے ہیں۔ الیکٹورل ووٹ آبادی کے لحاظ سے ہر ریاست کو مختص کیے جاتے ہیں، لہذٰا زیادہ آبادی والی ریاستیں صدارتی انتخابات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی انتخابات: ہیرس ٹرمپ انتخابی مہم اور اسلحہ کے حقوق و قوانین

'نیو یارک ٹائمز' سینا کالج سروے کے مطابق منگل کی شب ہونے والا مباحثہ دونوں اُمیدواروں بالخصوص کاملا ہیرس کے لیے زیادہ اہم ہے۔ کیوں کہ یہ بطور صدارتی اُمیدوار اُنہیں امریکی عوام کے سامنے متعارف کروانے کے لیے اہم ہو گا۔

سروے کے مطابق 28 فی صد امریکی کاملا ہیرس کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں جب کہ ٹرمپ کے معاملے میں یہ شرح نو فی صد ہے۔

کاملا ہیرس پیٹس برگ کے ہوٹل میں اس اہم مباحثے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ہیرس نے علامتی ٹرمپ کے ساتھ کئی فرضی مباحثے بھی کیے ہیں جن میں ٹیلی ویژن لائٹس اور ماڈریٹرز کے سوالات جیسی مشقیں بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مشیروں کے ساتھ اہم پالیسی معاملات پر بریفنگز میں مصروف ہیں اور ہیرس کے ساتھ فرضی مباحثوں سے گریز کر رہے ہیں۔

مباحثے کے لیے وہی قوانین لاگو ہوں گے جو جون میں صدر بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والے مباحثے میں تھے۔ یعنی جب ایک اُمیدوار بات کر رہا ہو گا تو دوسرا اسے نہیں ٹوکے گا۔ ماڈریٹر کے سوال کا جواب دینے کے لیے اُمیدوار کو دو منٹ دیے جائیں گے جب کہ اس پر ردِعمل کے لیے مخالف اُمیدوار کو ایک منٹ دیا جائے گا۔

'اے بی سی نیوز' کے اینکرز اسقاطِ حمل کے حقوق، میکسیکو کے ساتھ امریکی سرحد پر امیگریشن، جرائم کی شرح جیسے معاملات سے متعلق سوال اُٹھا سکتے ہیں۔

دوسری جانب مختلف بیانات میں دونوں اُمیدوار ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔

ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے 'فوکس نیوز' کے مبصر شان ہینٹی سے گفتگو میں کہا تھا کہ "میں اُنہیں (کاملا ہیرس) کو بات کرنے دُوں گا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بائیڈن اُن سے زیادہ ہوشیار تھے۔ اگر ایسا ہے تو پھر تو مسئلہ ہے۔"

ٹرمپ اکثر کاملا ہیرس کی ذہانت پر سوال اُتھاتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ "اُنہیں کچھ نہیں پتا ہوتا کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔"

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "یہ عورت خطرناک ہے، لہذٰا آپ کے پاس مجھے ووٹ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، چاہے آپ مجھے پسند کرتے ہیں یا نہیں۔"

دوسری جانب کاملا ہیرس بھی ڈونلڈ ٹرمپ پر طنز کرتی رہی ہیں۔

گزشتہ ماہ ڈیمو کریٹک نیشنل کنونشن میں صدارتی نامزدگی قبول کرتے وقت ہیرس نے ٹرمپ سے متعلق کہا تھا کہ وہ غیر سنجیدہ شخص ہیں اور انہیں دوبارہ وائٹ ہاؤس میں لانے کے انتہائی سنگین نتائج ہوں گے۔

امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے سابق صدور اور مستقبل میں آنے والے صدور کو آفیشل ڈیوٹیز کے دوران عدالتی کارروائی سے استثنا دینے پر کاملا ہیرس نے کہا تھا کہ اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہو گئے تو اس سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ "ذرا تصور کریں جب ٹرمپ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی تو وہ کس طرح امریکی صدر کے اختیارات کا استعمال کریں گے۔ وہ ان اختیارات کو آپ کی زندگیوں اور امریکی قومی سلامتی کو بہتر بنانے کے لیے نہیں بلکہ صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کریں گے۔"