پاکستان کے وفاقی وزیرِ برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری کہتے ہیں کہ رواں سال حج کے حوالے سے سعودی عرب نے تاحال واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔ البتہ حکومت محدود تعداد میں عازمین کو حج کے لیے بھیجنے کے انتظامات کی تیاری کر سکتی ہے۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیر نے کہا کہ وقت چوں کہ کم رہ گیا ہے تو سعودی عرب کے لیے رواں سال معمول کے مطابق حج کا انعقاد ممکن نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اس وقت محدود تعداد میں ہی انتظامات کر سکے گا۔ البتہ حجاج کی تعداد اور قواعد و ضوابط کیا ہوں گے اس بارے سعودی عرب نے واضح نہیں کیا۔
نور الحق قادری کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت اس معاملے پر سعودی عرب کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور ریاض کی بھی خواہش ہے کہ حج کے حوالے سے بڑے ممالک کو اعتماد میں لے کر فیصلے کیے جائیں۔
کرونا وائرس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وبا کے پھیلاؤ کے خدشے کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب حج کے حوالے سے سخت قواعد و ضوابط ترتیب دے رہا ہے اور پاکستان یقینی بنائے گا کہ ان حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ عازمینِ حج کو سعودی عرب روانگی سے قبل کرونا وائرس کا ٹیسٹ اور وہاں پہنچنے پر تین دن کے لیے قرنطینہ کرنا ہو گا اور اسی طرح مکہ سے مدینہ پہنچنے اور واپس مکہ آنے پر بھی کرونا وائرس کا ٹیسٹ کرانا لازم ہو گا۔
وفاقی وزیرِ کے مطابق طواف زیارت اور عمرہ کے لیے حرم کعبہ میں لوگوں کا اجتماع نہیں ہو گا اور اس مقصد کے لیے ہر ملک کے لیے مخصوص وقت کا تعین کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب کی وزارت صحت کی جانب سے حج اجتماع کے لیے ترتیب دیئے گئے ان قواعد و ضوابط پر عالمی ادارہ صحت کی مفاہمت ہوگئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وفاقی وزیرِ مذہبی امور کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے حج کا کوٹہ ملنے پر کم وقت کے باوجود پاکستان تمام انتظامات کو مکمل کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ کیوں کہ رواں سال حجاجِ کرام کہ تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہو گی۔
نور الحق قادری نے کہا کہ محدود تعداد میں حجاج کو بھیجنے کی اجازت ملنے پر ان کا انتخاب مشکل مرحلہ ہو گا۔ کیوں کہ گزشتہ سال قرعہ اندازی کے ذریعے کامیاب قرار پانے والے افراد کی تعداد بھی دو لاکھ ہے۔ رواں سال کے لیے حجاج کا انتخاب گزشتہ سال کامیاب قرار پانے والے افراد میں سے کیا جائے گا۔
حج کے اخراجات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں سال مناسکِ حج ایس او پیز (حفاظتی تدابیر) کے ساتھ ہوں گے۔ لہذا یقینی طور پر گزشتہ برسوں سے حج مہنگا ہو گا۔ لیکن اس کا صحیح اندازہ اس وقت لگایا جا سکے گا جب سعودی عرب حجاج کی تعداد اور قواعد و ضوابط سے حتمی طور پر آگاہ کر دے گا۔
سعودی عرب چین کی ویکسین کی منظوری دے دے گا؟
وفاقی وزیرِ مذہبی امور پیر نور الحق قادری کا کہنا تھا کہ وزارتِ خارجہ اور وزارتِ مذہبی امور پاکستان میں لگائی جانے والی چین کی ویکسین کی منظوری کے معاملے پر ریاض سے بات چیت کر رہے ہیں اور وہ پر امید ہیں کہ حج پالیسی کے اعلان سے قبل یہ معاملہ طے پا جائے گا۔
مجوزہ حج پالیسی میں سعودی عرب نے اپنی وزارتِ صحت سے منظور کردہ ویکسین ہی لگوانا لازم قرار دیا ہے جس میں فائزر، ایسٹرا زینیکا، موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین شامل ہیں۔
سعودی عرب سے منظور کردہ ویکسین میں چین کی کوئی بھی ویکسین شامل نہیں ہے جو پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے لگوائی ہے۔
حکومتِ پاکستان نے سعودی حکومت سے درخواست کی ہے کہ عازمینِ حج کے لیے چینی ویکسین کی بھی منظوری دی جائے۔
نور الحق قادری نے کہا کہ پاکستان دو بنیادوں پر سعودی عرب کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ایک تو یہ کہ سائنو فارم ویکسین کو عالمی ادارہٴ صحت نے تسلیم کر لیا ہے۔ دوسرا ایک ویکسین لگائے جانے کے بعد ڈاکٹر کسی اور کمپنی کی ویکسین لگانا تجویز نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد سائنو فارم ویکسین لگوا چکے ہیں اور ان دو بنیادوں پر قوی امکان ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ویکسین کا معاملہ حل ہو جائے گا۔
’ممبر و محراب عوام کی رائے کا ذریعہ ہے‘
اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بہتر معاشرے کی تشکیل کے لیے مساجد میں خطبۂ جمعہ کے لیے موضوعات کے انتخاب پر گفتگو کرتے ہوئے نور الحق قادری کہتے ہیں کہ پاکستان میں ممبر و محراب کو جو آزادی حاصل ہے کسی اور اسلامی ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے مطابق حکومت اس آزادی کو سلب یا محدود کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
انہوں نے کہا کہ قوانین تو بنتے رہتے ہیں۔ البتہ ممبر و محراب کا جو عوام کی رائے کا ذریعہ ہے۔ اسے معاشرے کی اصلاح کے لیے استعمال کرنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ علما آسمان سے اوپر یا زمین سے نیچے کی گفتگو تو کرتے ہیں مگر معاشرے، انسانیت اور قوم کی ضرورت کے موضوعات پر بات نہیں کرتے۔
خیال رہے کہ صدر عارف علوی کی ہدایت پر اسلامی نظریاتی کونسل نے جمعے کے خطبات کے لیے 100 عنوانات کا انتخاب کیا تھا جسے بعض مذہبی جماعتوں نے حکومت کی جانب سے آزادی کو سلب کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔
’تحریکِ لبیک پابندی پر نظرِ ثانی کا مقدمہ مثبت انداز میں پیش کرے‘
تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی حکومت ایک بڑی جماعت پر پابندی لگا کر دیوار سے لگانا نہیں چاہے گی اور تحریکِ لبیک کو چاہیے کہ وہ پابندی پر نظرِ ثانی کا اپنا مقدمہ مثبت انداز میں پیش کرے۔
انہوں نے کہا کہ تحریکِ لبیک کو چاہیے کہ وہ اپنے ماضی کے رویے اور طرزِ عمل سے اجتناب کرتے ہوئے اپنا سیاسی اور مذہبی منشور مثبت انداز میں پیش کرے۔
فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کے لیے احتجاج کے بعد حکومت نے تحریکِ لبیک پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم تحریکِ لبیک کے رہنماؤں کے احتجاج ختم کرنے کے اعلان پر حکومت نے پابندی پر نظرِ ثانی کا عندیہ دیا تھا۔
SEE ALSO: تحریک لبیک کا معاملہ کیسے ’ہینڈل‘ کیا گیا؟ تجزیہ کاروں کی رائےمنگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تحریکِ لبیک پر پابندی کے خاتمے کی درخواست پر فیصلہ کرنے کے لیے وزیرِ اعظم عمران خان نے کابینہ کی ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
’امریکہ اور نیٹو طویل قیام کے باوجود افغانستان میں تعمیری کام نہیں کر سکے‘
افغان امن عمل پر گفتگو کرتے ہوئے سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے سے منتخب رکن قومی اسمبلی پیر نور الحق قادری کہتے ہیں کہ طویل جنگ کے بعد اب افغان عوام کو امن ضرور حاصل ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کا قیام غیر ملکی افواج کے انخلا، طالبان کی زمینی حقیقت کو تسلیم کرنا اور مستقبل کے فیصلے افغان عوام کو کرنے کا حق دینے پر منحصر ہے۔
نور الحق قادری نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو طویل قیام کے باوجود افغانستان میں تعمیری کام نہیں کر سکے۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد آبادکاری کی ضرورت ہوگی جس پر دنیا کو توجہ دینا ہوگی۔
Your browser doesn’t support HTML5
وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ انخلا کے بعد ابتدائی مراحل میں داعش، طالبان گروہوں اور دیگر جنگ جو گروپ ایک دوسرے کے سامنے آ سکتے ہیں۔ اس کے پاکستان پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان سے انخلا کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں اور یہ عمل رواں برس 11 ستمبر کو مکمل ہو گا۔ جب کہ قیامِ امن اور شراکتِ اقتدار کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات بھی جاری ہیں۔