اس سال دوسرے ملکوں سے لاکھوں حجاج کے نہ آنے کی وجہ سے سعودی عرب کو خاصا معاشی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
عالمی مالیاتی فنڈ کے اندازے کے مطابق، سال 2020ء میں سعودی عرب کی کل قومی پیداوار چھ اعشاریہ آٹھ فی صد کم ہو گی۔ حج سے نہ حاصل ہونے والی آمدنی کے علاوہ تیل کی گرتی ہوئی قیمت بھی سعودی معیشت کو متاثر کر رہی ہے۔
اس وقت مشرق وسطیٰ کے سارے خطے میں سعودی عرب میں کرونا وائرس کے کیسیز کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس مرض میں دو لاکھ تیرہ ہزار افراد مبتلا ہیں جبکہ دو ہزار کے قریب اموات واقع ہو چکی ہیں۔
ان حالات میں سعودی حکومت نے حج کرنے والوں کی تعداد کو بہت زیادہ محدود کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حاجیوں کی بڑی تعداد کی عدم شرکت سے سعودی معیشت خاصی متاثر ہوگی۔
کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسیز کی وجہ سے دارالحکومت ریاض میں قائم امریکی سفارت خانہ امریکی شہریوں کو واپس امریکہ بھیجنے کے لیے خصوصی پروازوں کا بندوبست کر رہا ہے۔ اس میں سفارت خانے کا عملہ اور ان کے اہل خانہ شامل ہیں۔
سعودی عرب نے کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی سخت اقدامات اٹھائے ہیں، مگر تین کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں لوگوں کے آنے جانے کی جو کثرت ہے، اس کی وجہ سے اسے قابو میں رکھنا خاصا دشوار ہے۔
گلف سٹیٹ انالیٹکس کے تجزیہ کار تھیوڈور کاراسک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں مکمل لاک ڈاون بھی کیا گیا۔ لیکن وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں کی آبادی اتنی مختلف النوع اور سرحد کے آر پار اس کی نقل و حرکت اتنی زیادہ ہے کہ مکمل لاک ڈاون پر عمل درآمد بہت مشکل ہے۔ اور اس لیے بیماری کی روک تھام ممکن نہیں۔
سعودی عرب میں یہ مرض اس طرح بڑھا کہ اس مرض میں مبتلا ایک یا دو افراد دوسرے لوگوں سے ملے اور پھر مرض بڑھتا گیا۔ اس کے علاوہ یہاں پر غیر ملکی کارکنوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ لوگ بھی ضروری احتیاط نہیں کر سکے اور ان کے ذریعے بھی کرونا وائرس پھیلتا چلا گیا۔
تھیوڈور کاراسک خود بھی متعدی امراض کو پھیلنے سے روکنے کے شعبے میں تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے متحدہ عرب امارات میں آفات کی صورت میں اقتصادی حکمت عملی تیار کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی حکام اس مرض کی سنگینی سے بخوبی آگاہ ہیں اور اسی لیے انہوں نے فوراً مکے اور مدینے کی مساجد کو بند کردیا تھا۔
اب جولائی کے آخر میں حج کے لیے آنے والوں کی تعداد کو انتہائی کم کر دیا ہے۔ عام طور سے ہر سال ایک سو اسی ملکوں سے بیس لاکھ سے زیادہ حجاج سعودی عرب آتے ہیں۔ مگر اب صرف سعودی عرب میں مقیم افراد یہ سعادت حاصل کر سکیں گے۔ سعودی عرب میں کسی بھی غیر ملک سے کوئی شہری حج کے لیے نہیں آسکتا۔
ظاہر ہے اس سال حج کا اجتماع انتہائی مختصر ہوگا۔ تھیوڈور کاراسک کہتے ہیں کہ حاجیوں کے نہ آنے سے سعودی عرب کا بھاری مالی نقصان بھی ہوگا۔ مگر سعودی عرب کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ محصولات زر کے مقابلے میں سلطنت کو بچانا زیادہ اہم ہے۔
تجزیہ کاروں کا تخمینہ ہے کہ عام حالات میں سعودی عرب کو حج سے تقریباً بٓارہ ارب ڈالر حاصل ہوتے تھے، یعنی اس کی کل قومی پیداوار کا سات فی صد۔ نجی شعبے کی آمدنی اس کے علاوہ ہوتی تھی، جو پچیس سے تیس فیصد کے قریب بنتی تھی۔
عالمی مالیاتی فنڈ کو توقع ہے کہ سال 2020ء میں سعودی عرب کی کل قومی پیداوار چھ اعشاریہ آٹھ فی صد کم ہو گی، کیونکہ کرونا وائرس کی وبا کے علاوہ تیل کی گرتی ہوئی قیمت سے بھی سعودی عرب کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ان دگرگوں معاشی حالات کے باوجود سعودی حکومت دارالحکومت ریاض میں سیاحت کے فروغ کے لیے بہت بڑا منصوبہ شروع کر رہی ہے، جس کی مالیت بیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ وائرس کے خاتمے کے بعد اس علاقے میں سیاحت کے فروغ سےمعیشت کی بحالی ممکن ہو جائے گی۔