خاتون صحافی اور سرگرم کارکن گل بخاری جنہیں منگل کی رات اپنے گھر سے ٹی وی شو کے لیے اسٹوڈیو جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے زبردستی اغوا کر لیا تھا، اپنے گھر واپس پہنچ گئی ہیں۔
بدھ کی صبح ان کے خاندان والوں نے بتایا کہ گل بخاری گھر واپس آ گئی ہیں اور وہ خیریت سے ہیں۔
پولیس نے بھی گل بخاری کی واپسی کی تصدیق کر دی ہے۔
Gul Bokhari’s family confirms to me that she has returned home and is fine. The people who picked her up dropped her back again. Thank God !
— Munizae Jahangir (@MunizaeJahangir) June 5, 2018
اس سے قبل میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ لاہور میں نجی ٹی وی چینل وقت نیوز کی خاتون اینکر کو تین گاڑیوں میں سوار نامعلوم افراد لے کر چلے گئے ہیں، جب کہ لاهور میں ہی صحافی اسد کھرل پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا اور انہیں زخمی کردیا ہے۔
گل بخاری کے مبینہ اغوا کی اطلاع سب سے پہلے سوشل میڈیا پر ان کے رات گیارہ بجے نشر ہونے والے پروگرام کے پروڈیوسر محمد گل شیر نے دی جس میں ان کا کہنا تھا کہ گل بخاری کو شو کے لیے آتے وقت دفتر کی گاڑی سے اتارا گیا اور نامعلوم افراد انہیں ساتھ لے گئے، اس دوران دفتر کی گاڑی کے ڈرائیور پر تشدد بھی کیا گیا۔
گل بخاری کے اغوا پر مختلف حلقے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ مریم نواز نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
Extremely disturbing, worrisome news of @gulbukhari abduction. This is just cruel & worst kind of oppression. Sad day. #BringBackGulBukhari
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) June 5, 2018
گل بخاری کے اغوا کی اطلاع سوشل میڈیا پر آنے کے بعد کچھ ہی دیر میں سوشل میڈیا پر فری گل بخاری ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔
وقت نیوز سے ہی منسلک صحافی مطیع اللہ جان نے ٹوئیٹر پر گل بخاری کے مبینہ اغوا کی تصدیق کی اور کہا کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق نامعلوم افراد انہیں اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
رات گئے تک کسی بھی حکومتی ادارے نے گل بخاری کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی۔
گل بخاری فوج پر کھل کر تنقید کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں، وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ سرگرم کارکن بھی ہیں اور وہ اخبارت سمیت پاکستان کے کئی میڈیا گروپس کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ انگریزی اخبار نیشن کے لیے بھی لکھتی ہیں اور وقت ٹیلی وژن پر ایک شو کی میزبانی بھی کرتی ہیں۔
ملک میں ایک ایسے وقت میں، جب عام انتخابات قریب آ رہے ہیں، آزادی اظہار اور پریس پر سینسر شپ کے متعلق خدشات بڑھ رہے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں جنگ گروپ کے جیو ٹی وژن کو ملک کے زیادہ تر حصوں سے کئی ہفتوں کے لیے آف دی ایئر کر دیا گیا تھا۔
اپریل میں رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستانی میڈیا کو جسے ایشیا میں سب سے زیادہ فعال اور گونج دار تصور کیا جاتا تھا، انتہاپسند گروپس اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کی بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے سیلف سینسر شپ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
گل بخاری کے اغوا کے پر عمر چیمہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں انہیں زبردستی لے جانے کا ذکر کیا ہے۔
Waqt TV driver was bringing @gulbukhari to channel office for 11pm show when intercepted by 4-6 double cabins. They asked Gul to come out and bundled her in the double cabin blindfolded, according to @Gul_sher112 who produces show attended by Gul. #GulBukhari
— Umar Cheema (@UmarCheema1) June 5, 2018
دوسری جانب صحافی اسد کھرل کے حوالے سے اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ لاهور میں ایئرپورٹ کے قریب نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی کو روکا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
اسد کھرل کو سروسز اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں انہیں طبی امداد دی جارہی ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے گذشتہ روز ایک نیوز کانفرنس کے دوران سوشل میڈیا کے حوالے سے بات کی اور ایک سلائیڈ بھی دکھائی جس میں ان کے مطابق بہت سے صحافی اور صحافتی ادارہ جیونیوز بھی شامل تھا۔
پاک فوج کے ترجمان کی نیوز کانفرنس کے بعد اسلام آباد میں پشتون تحفظ موومنٹ کے 28 کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ اب لاهور میں صحافی گل کو مبینہ طور پر اغوا اور اسد کھرل کو زخمی کردیا گیا ہے۔