اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے پر بالآخر وفاقی حکومت نے الیکشن ایکٹ میں متناع ترمیم سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے۔
گزشتہ ہفتے عدالتِ عالیہ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے حکومت کو 20 فروری تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس دن سینیٹر راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش نہ کی گئی تو اسے توہینِ عدالت تصور کرتے ہوئے وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ کو بھی عدالت طلب کیا جا سکتا ہے۔
منگل کو جب فیض آباد دھرنے اور الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم سے متعلق معاملے کی سماعت شروع ہوئی تو حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید ایک روز کی مہلت مانگی۔
لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اسے مسترد کرتے ہوئے دوپہر ایک بجے تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
انھوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کے ساتھ عجیب کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کیوں نہ وزیرِ اعظم کو طلب کیا جائے؟ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیرِ اعظم کا اس رپورٹ سے کوئی تعلق نہیں۔
جسٹس صدیقی نے کہا کہ وزیرِ اعظم ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ ان کا کیسے اس رپورٹ تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ختمِ نبوت کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ آپ کو اس معاملے کی نزاکت کا احساس نہیں۔
بعد ازاں حکومت کی طرف سے رپورٹ عدالت میں جمع کرادی گئی جس کے بعد اس معاملے کی سماعت بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے جسٹس صدیقی نے کہا کہ اس کیس کی سماعت اب روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔
گزشتہ نومبر میں ایک مذہبی جماعت 'تحریک لبیک یارسول اللہ' نے انتخابی حلف نامے میں ختمِ نبوت سے متعلق کی گئی ترمیم کے خلاف اسلام آباد میں تین ہفتوں تک دھرنا دیا تھا۔
حکومت کا مؤقف تھا کہ ترمیم کے دوران الفاظ سہواً تبدیل ہوئے جنہیں نشان دہی پر درست کر دیا گیا تھا۔
لیکن مظاہرین اس غلطی کا ارتکاب کرنے والوں کی نشاندہی اور انھیں سزا دینے کا مطالبہ لے کر دھرنے پر بیٹھے رہے جو فوج کی ثالثی اور اس وقت کے وزیرِ قانون زاہد حامد کے مستعفی ہونے پر ہی منشتر ہوئے۔
مظاہرین سے معاہدے میں حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹی معاملے کی تحقیقات کر کے حکومت کو رپورٹ پیش کرے گی جس کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔