آرمی چیف کی مدتِ ملازمت: عدالتی فیصلے پر وفاق کی حکم امتناع کی درخواست

سپریم کورٹ میں دائر وفاق کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 28 نومبر کا فیصلہ معطل نہ ہوا تو نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کی وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناع اور نظر ثانی اپیل کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنانے کی درخواست دائر کر دی ہے۔

درخواست صدر مملکت عارف علوی، وزیرِ اعظم عمران خان، وزارتِ دفاع کے سیکرٹری اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے مشترکہ طور پر سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے پر تب تک عمل درآمد روکے جب تک حکومت کی دائر کردہ نظر ثانی درخواست پر فیصلہ نہیں آجاتا۔

درخواست میں وفاق نے یہ بھی مؤقف اپنایا ہے کہ سپریم کورٹ کا 28 نومبر کا فیصلہ معطل نہ ہوا تو نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ

آرمی ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ بھی منظر عام پر آیا ہے جس میں حکومت نے آرٹیکل 243 میں ترمیم کے ساتھ آرمی ایکٹ 1952 میں ایک نیا باب شامل کیا ہے۔

تحریری مسودے کے مطابق نئے آرمی چیف کی تعیناتی وزیرِ اعظم کی سفارش پر صدر مملکت کریں گے۔ وزیرِ اعظم کی سفارش پر آرمی چیف کو تین سال کی توسیع دی جا سکے گی اور وزیرِ اعظم زیادہ سے زیادہ تین سال اور اس سے کم مدت کی سفارش بھی کر سکتے ہیں۔

نئے ایکٹ کے مطابق، آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کو کسی بھی عدالت میں کسی صورت چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ آرمی چیف پر ایک جنرل کی مقرر کردہ ریٹائرمنٹ کی عمر کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اپنی مدتِ تعیناتی کے دوران ریٹائرمنٹ کی عمر آنے پر بھی آرمی چیف رہیں گے۔

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کو آرمی، نیوی یا فضائیہ کے سربراہان میں سے کسی کو بھی تعینات کیا جا سکتا ہے اور چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی مدت تعیناتی تین سال ہوگی۔

SEE ALSO: 'آرمی چیف کے عہدے کی مدت کو ریگولیٹ کیے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا'

نئے ایکٹ کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے لیے ٹرمز اینڈ کنڈیشنز وزیرِ اعظم کی سفارش پر صدر طے کریں گے۔ پاکستان آرمی کے سینئر جنرل کو بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنایا جا سکتا ہے۔

ترمیم شدہ ایکٹ میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ وزیرِ اعظم کی سفارش پر صدر مملکت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو ملازمت میں تین سال تک توسیع دے سکتے ہیں۔

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کو بھی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا تھا؟

پاکستان کی سپریم کورٹ نے 28 نومبر کو برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں چھ ماہ کی توسیع کی منظوری دی تھی۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان کی جانب سے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق عدالت میں نئی دستاویزات پیش کی گئیں، جس کا جائزہ لینے کے بعد، سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت سے متعلق اپنا مختصر فیصلہ سنایا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کہ حکومت نے مسلح افواج کے قوانین میں ترامیم کے لیے چھ ماہ کا وقت مانگا ہے۔ ہمارے سامنے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن جمع کرایا گیا اور ہمارے سامنے یہ سوال آیا کہ کیا توسیع دی جا سکتی ہے یا نہیں۔

SEE ALSO: آرمی ایکٹ میں ترمیم وفاقی کابینہ سے منظور

عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ محدود یا معطل کرنے کا نوٹی فکیشن میں کہیں ذکر نہیں۔ عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑتی ہے اور پارلیمنٹ طے کرے گی کہ مدت کتنی ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا تھا کہ وفاقی حکومت اس تقرری پر ایک سے دوسرا موؑقف اپناتی رہی اور آرمی چیف کی مدتِ ملازمت سے متعلق کوئی قانونی شق نہیں دکھائی گئی۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق نئی سمری اور بیان حلفی عدالت میں پیش کیا اور یقین دہانی کرائی تھی کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر اس میں ضروری تبدیلیاں کریں گے۔

تفصیلی فیصلہ

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ 16 دسمبر کو جاری کیا۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو قانونی حمایت حاصل نہیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف نئی تقرری چھ ماہ کے لیے ہو گی اور ان کی موجودہ تقرری بھی مجوزہ قانون سازی سے مشروط ہو گی۔ اگر پارلیمان آئندہ چھ ماہ میں تعیناتی سے متعلق قانون سازی نہ کر سکی تو چھ ماہ بعد جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائرڈ تصور ہوں گے۔

اُس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ “ آپ جس قدر بھی طاقت ور کیوں نہ ہوں قانون آپ سے بالاتر ہے”۔ آرمی چیف کے آئینی عہدے کی مدت کو ریگولیٹ کیے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی میں استحکام لانا منتخب نمائندوں کا کام ہے۔ پارلیمان کو یاد رکھنا چاہیے قومیں اداروں کو مضبوط کرنے سے ہی ترقی کرتی ہیں۔

نظر ثانی درخواست

چھبیس دسمبر 2019 کو وفاقی حکومت نے جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ فیصلے میں اہم آئینی و قانونی نکات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔

نظر ثانی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ درخواست کی اِن کیمرا سماعت کی جائے۔

نظر ثانی درخواست میں بھی وفاقی حکومت، وزیرِ اعظم عمران خان، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ درخواست گزار ہیں۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالتی حکم بے ضابطگیوں کا شکار ہے جس نے انصاف کی مدد سے ہونے والے ایک عمل کو ناانصافی کے عمل میں تبدیل کردیا۔

وفاقی کابینہ سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری

سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے بعد وفاقی کابینہ نے یکم جنوری 2020 کو آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی ہے۔

یہ ترمیمی بل منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ امکان ہے کہ اس بل کو جمعے کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

آرمی ایکٹ میں کی جانے والی نئی ترمیم میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

اس ایکٹ میں آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، ایئر چیف اور نیول چیف کی مدت ملازمت، ان کی تنخواہوں اور مراعات سمیت دیگر معاملات بھی طے کیے گئے ہیں۔