|
پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کو بغیر اجازت سوشل میڈیا استعمال کرنے سے روکنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ یہ حکومت کا درست فیصلہ ہے، تاہم ڈیجیٹل رائٹس اور انسانی حقوق کے کارکن اسے شخصی آزادیوں کے منافی قرار دیتے ہیں۔
حکومت نے سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا پر سیاسی یا مذہبی رائے کے اظہار سے ایک بار پھر روکنے کے ساتھ کسی بھی غیر مجاز سرکاری عہدے دار یا میڈیا کے ساتھ معلومات شیئر کرنے سے گریز کرنے کا بھی کہا ہے۔
سال 2021 میں حکومت نے سرکاری معلومات اور دستاویزات لیک ہونے سے روکنے کے لیے تمام سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا کے استعمال سے روک دیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی سرکاری ملازم، حکومت کی اجازت کے بغیر کسی میڈیا پلیٹ فارم میں شرکت نہیں کر سکتا۔
نئے جاری ہونے والے حکم نامہ میں وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آنے والے وفاقی اداروں کے سرکاری ملازمین کو بغیر اجازت سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرنے سے روکا گیا ہے۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز 1964 کی پاسداری کریں اور بغیر اجازت فیس بک، 'ایکس' سمیت سوشل میڈیا کی کوئی بھی ایپلی کیشنز استعمال کرنے سے گریز کریں۔
'سرکاری ملازمین کے لیے احتیاط ضروری ہے'
سابق سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ بہت مناسب ہے کیوں کہ سرکاری ملازمین کی جانب سے سوشل میڈیا کے استعمال سے حکومت میں موجود افراد کے درمیان خیالات کے منقسم ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔
اُن کے بقول بعض سرکاری ملازمین جیسے ضلعی انتظامیہ یا پولیس افسران اپنے اداروں کی اچھی چیزوں کو اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں جس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
لیکن اگر کوئی سرکاری ملازم اپنے دفتر میں بیٹھ کر کسی سرکاری معاملے پر کوئی کمنٹ یا 'ایکس' پر پوسٹ کرتا ہے تو اس کے بارے میں عوام میں مختلف رائے ہو سکتی ہے۔
اُن کے بقول سرکاری ملازم ہوتے ہوئے احتیاط بہت ضروری ہے۔ بعض افسران کی ذاتی تصاویر جب بیرون ملک شائع ہوتی ہیں تو ان کے بارے میں اکثر لوگ منفی کمنٹس دیتے ہیں کہ یہ افسران وہاں عیاشی کر رہے ہیں۔ لہذا ایسی صورتِ حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری ملازمین کو پابند کیا جائے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال سے گریز کریں۔
'ہر شخص کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق ہے'
ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ہارون بلوچ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ سرکار اپنے طور پر سوچتی ہے۔ لیکن انفرادی طور پر کسی شخص کو اپنے خیالات کے اظہار سے نہیں روکا جا سکتا۔
اُن کے بقول ماضی میں بھی ایسے احکامات آتے رہے ہیں۔ لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ حکومت کی طرف سے فوج میں یہ حکم دیا گیا تو وہاں تو مان لیا گیا۔ لیکن سول سرونٹس پر اس حکم پر عمل درآمد کروانا مشکل ہے۔
ہارون بلوچ نے کہا کہ حکومت کا یہ کہنا کہ کسی شخص کی رائے اس ادارے کی رائے سمجھی جا سکتی ہے تو یہ بات غلط ہے کیوں کہ ہر ادارے کا ایک ترجمان مقرر ہوتا ہے اور اس ادارے کے ترجمان کو ہی اس ادارے کا مؤقف سمجھا جانا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ سمجھنے والی کی غلطی ہے کہ وہ کسی غیر متعلقہ اور ترجمان کی رائے کو اس ادارے کی رائے سمجھے۔ اگر کوئی شخص کسی ادارے میں رہتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو اسے اس شخص کی ذاتی رائے ہی سمجھنا چاہیے۔
اُن کے بقول ہر شخص کو آئین کے مطابق شہری آزادیاں حاصل ہیں اور ان پر کسی طور قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
'سرکاری ملازمین ٹیکس پیئرز کو جواب دہ ہیں'
انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں کہ سرکاری ملازمین ملک کے شہری بھی ہیں۔ یہ حکومت کے ملازم نہیں بلکہ ٹیکس پیئرز کو جواب دہ ہیں۔
اُن کے بقول اگر وہ کسی معاملے پر سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے پاس جس شعبے میں وہ ہیں اس کی بہتر معلومات ہوں تو وہ شیئر کر سکتے ہیں۔
فرزانہ باری کہتی ہیں کہ یہ خاصی مشکل صورت حال ہے کہ آپ سرکاری ملازم کو بالکل خاموش کروا دیں اور انہیں بات کرنے کی بھی آزادی نہ ہو۔
اس سوال پر کہ کسی سرکاری ملازم ک ذاتی رائے یا معلومات کو سرکاری راز افشا کرنے کا الزام دیا جا سکتا ہے؟ اس پر فرزانہ باری نے کہا کہ اگر کوئی سرکاری عہدیدار اپنی سرکاری ذمہ داریوں کے برخلاف کوئی سوشل میڈیا پوسٹ کرتا ہے تو انہیں اس پر ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس بارے میں حکومت کیس ٹو کیس جائزہ لے کر کسی کو پابند کرسکتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر تمام سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا کے استعمال سے ہی روک دینا درست نہیں ہے۔
دنیا بھر میں سرکاری ملازمین کی طرف سے سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے باقاعدہ گائیڈ لائنز موجود ہیں جن کے مطابق ہی سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ سیکریٹریٹ کی طرف سے اپنے ملازمین کو گائیڈ لائنز جاری کی گئی ہیں ان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ کوئی بھی ایسی معلومات جو سرکاری معلومات ہوں وہ بغیر اجازت شئیر نہیں کر سکتے۔
اس کے علاوہ اگر کوئی شخص سوشل میڈیا پوسٹ کو اپنی ذاتی رائے کہہ کر بھی اس کا اظہار کرتا ہے تو اسے ادارے کی طرف سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بھی سرکاری ملازم ادارے کا نشان یا لوگو اپنے ذاتی اکاؤنٹس کے ساتھ استعمال نہیں کر سکتا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یو این سٹاف ممبر پرائیویٹ نہیں ہے اور اسے کسی بھی انٹرنیٹ سرچ کے ذریعے اقوامِ متحدہ کے ملازم کے طور پر تلاش کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں بھی کئی سرکاری ملازمین باقاعدگی سے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور اپنی سرکاری اور ذاتی تصاویر سمیت اپنے اداروں کی بعض چیزیں بھی سوشل میڈیا پر شئیر کرتے ہیں جس پر حکومت نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔