رسائی کے لنکس

خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں شدت پسندی کیوں بڑھ رہی ہے؟


  • حالیہ عرصے میں خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں شدت پسندی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
  • فوج کے افسر سمیت چار افراد کے اغوا اور رہائی کے معاملے نے علاقے کی سیکیورٹی صورتِ حال پر سوال اُٹھا دیے ہیں۔
  • رپورٹس کے مطابق اس واقعے کا مقدمہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے گنڈا پور گروپ کے نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
  • مبصرین علاقے میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کو کلاچی کی جغرافیائی اہمیت اور افغان سرحد کے قریب ہونے کو قرار دیتے ہیں۔
  • علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی موجودگی کے باوجود شدت پسند کارروائی کرنے میں کامیاب ہو گئے جو سوالیہ نشان ہے: تجزیہ کار اشتیاق محسود
  • علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے فوجی آپریشن ناگزیر ہے: دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ

پشاور -- پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں حالیہ عرصے میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان سے فوجی افسر سمیت چار افراد کے اغوا اور رہائی کے معاملے نے بھی جنوبی علاقوں میں سیکیورٹی صورتِ حال پر سوال اُٹھا دیے ہیں۔

حالیہ عرصے میں ان علاقوں میں دھماکے، فائرنگ، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گو کہ زیادہ تر حملے پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر کیے جاتے ہیں تاہم عام شہری بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔

پاکستان فوج کے لیفٹننٹ کرنل، ان کے دو بھائیوں اور بھتیجے کے اغوا میں بھی کالعدم تحریکِ طالبان (گنڈا پور گروپ) کا نام سامنے آیا ہے جن کی رہائی کے عوض بھاری تاوان اور مبینہ شدت پسندوں کی رہائی کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔ لیکن پاکستان فوج کے مطابق ان افراد کو غیر مشروط طور پر رہا کرایا گیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق اس واقعے کا مقدمہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے گنڈا پور گروپ کے نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

افغان سرحد سے قربت اور جدید اسلحے کی بھرمار

مبصرین علاقے میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کو کلاچی کی جغرافیائی اہمیت اور افغان سرحد کے قریب ہونے کو قرار دیتے ہیں۔

مقامی صحافی اشتیاق محسود کا کہنا ہے ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی ایک جانب ضلع ٹانک جب کہ دوسری جانب درابند کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کے علاوہ کچھ علاقے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ بھی لگتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اشتیاق محسود کا کہنا تھا کہ کلاچی ایک پس ماندہ علاقہ ہے اور یہ ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند تنظیموں کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اُن کے بقول علاقے میں جدید اسلحے کی بھرمار ہے۔ ٹی ٹی پی کے مقامی جنگجوؤں کے علاوہ افغان شہری بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں جو کہ زیادہ تر کارروائیاں موٹر سائیکلوں کے ذریعے کر کے فرار ہو جاتے ہیں۔

ان کے بقول کرنل خالد امیر کے اغوا کا واقعہ بھی شام کے تقریباً چھ بجے پیش آیا جہاں موٹرسائیکل سوار انہیں آسانی سے اپنے ساتھ لے گئے۔

اشتیاق محسود کا کہنا ہے کہ دلچسپ امر یہ ہے کہ جس مسجد سے کرنل خالد اور دیگر افراد کو چند موٹر سائیکل سواروں نے بندوق کی نوک پر اغوا کیا۔ وہاں قریب ایک پولیس اسٹیشن اور ایک کالج میں فوجی اہلکار تعینات ہیں، لیکن اس کے باوجود شدت پسند یہ کارروائی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اشتیاق محسود کے مطابق یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ گنڈا پور طالبان کی جانب سے اس قسم کی واردات کی گئی ہو بلکہ وہ ایک منظم نیٹ ورک رکھتے ہیں۔

ان کے بقول اس سے قبل اسی علاقے سے ججوں کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا جس میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ قبل جج شاکر اللہ مروت کو بھی اغوا کیا گیا جنپیں بعد ازاں صوبائی حکومت کی کوششوں سے رہا کرایا گیا۔

اگرچہ ان واقعات کی میڈیا میں زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں تاہم سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ کرنل خالد امیر اور دیگر واقعات میں اغوا ہونے والے افراد کی رہائی بھاری تاوان اور قیدیوں کی رہائی کے بعد عمل میں لائی گئی۔

اشتیاق محسود کے مطابق گنڈا پور گروپ کی قیادت ضرار گنڈا پور کرتے ہیں جن کو ٹی ٹی پی میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔

گنڈا پور قبائل کا اثر و رسوخ

سینئر تجزیہ کار اور مصنف فخر کاکاخیل کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں شدت پسندوں کے محسود طالبان، داوڑ طالبان اور وزیر طالبان گروپ زیادہ منظم ہیں۔ لیکن لیکن ڈیرہ اسماعیل خان کے مضافاتی علاقے کلاچی میں گنڈا پور قبائل آباد ہیں۔

ان کے بقول یہ علاقہ پشتو کے ساتھ ساتھ سرائیکی بیلٹ سے بھی منسلک ہے جہاں ماضی میں لشکرِ طیبہ اور لشکرِ جھنگوی سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کا کافی اثرو رسوخ رہا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فخر کاکاخیل نے مزید بتایا کہ بینظیر بھٹو پر خود کش حملہ ہو یا سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہو، ان واقعات میں بھی اسی خطے کے افراد ملوث پائے گئے۔

کلاچی کے محل و وقوع کو بیان کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک جانب یہ جنوبی وزیریستان جب کہ دوسری جانب کوہ سلیمان کے راستے ژوب کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی ہیں۔

دوسری جانب دریائے سندھ کے پار بھکر اور جنوبی پنجاب کو بھی اسی راستے سے رسائی ملتی ہے۔ ان کے بقول گنڈا پور طالبان اس تمام خطے میں کارروائیوں کے لیے مشہور ہیں۔

فخر کاکاخیل کے مطابق 2013 میں سابق ممبر اسمبلی اسرار اللہ گنڈا پور اور ان کے بھائی پر قاتلانہ حملے ہوئے تاہم اگست 2021 کے بعد جب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہوا تو اس کے بعد افغانستان میں لڑنے والے گنڈا پور طالبان کی واپسی ہوئی۔

فوجی آپریشن ناگزیر

سابق سیکریٹری قبائلی علاقہ جات خیبر پختونخوا بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کہتے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہوں کے ہاتھوں جو نایاب اسلحہ لگا اس کے بعد شدت پسندوں کی کارروائیاں زیادہ پُراثر اور منظم انداز میں ہونے لگیں۔

واضح رہے کہ امریکی حکام افغانستان میں اسلحہ چھوڑ جانے کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کے مطابق پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ضربِ عضب کے بعد بھی دہشت گردوں کا منظم انداز میں صفایا جاری رکھا۔ تاہم سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مبینہ 'امن معاہدے' کے بعد سے علاقے میں بے امنی بڑھی۔

بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا ایک جامع فوجی آپریشن سے ہی ممکن ہے۔

اُن کے بقول اس سلسلے میں حکومت نے فوج کی نگرانی میں 'آپریشن عزم استحکام' کے شروع کرنے کی بھی بات کی۔ لیکن صوبہ خیبر پختونخوا کی سیاسی حکومت نے وفاقی حکومت کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔

بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کے مطابق سیکیورٹی کے معاملات کو سیاست سے الگ رکھ کر دیکھنے سے ہی بے امنی کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے۔

یوں تو افغانستان سے متصل قبائلی اضلاع شدت پسندی کا مرکز رہے ہیں، تاہم ماہرین کے مطابق اب دہشت گردی جنوبی اضلاع کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹیڈیز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ اگست میں 54 دہشت گرد حملے ہوئے جب کہ جولائی میں ہونے والے حملوں کی تعداد 34 تھی۔

ان 54 میں سے 29 حملے خیبرپختونخوا جب کہ 28 بلوچستان میں ہوئے جن میں مجموعی طور پر 84 افراد ہلاک اور 166 زخمی ہوئے۔

فورم

XS
SM
MD
LG