چین کا انٹر نیٹ کی سنسرشپ کی پالیسیوں کا دفاع

امریکی انٹر نیٹ کمپنی گوگل کی جانب سے چین میں قائم اپنے مرکز کی ہانگ کانگ منتقلی کے ایک دن سے بھی کم عرصے کے بعد چین نے انٹرنیٹ کی سنسر شپ سے متعلق پالیسیوں کا دفاع کیا ہے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان شین گانگ نے منگل کے روز گوگل کے بارے میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ چین میں انٹر نیٹ بالکل آزاد ہے لیکن اسے قومی قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کے تحت چلایا جاتا ہے۔

شین نے کہا کہ چین اس مواد کی کانٹ چھانٹ کرتا ہے جسے وہ قومی سلامتی یا سماجی مفاد کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے۔

انہوں نے انٹر نیٹ سروسز فراہم کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں، مثلاً گوگل پر زور دیا کہ اگر وہ چین میں کاروبار کرنا چاہتی ہیں تو وہ ملک کے قوانین اور ضابطوں کی پابندی کریں۔

انٹرنیٹ کے مواد کی کانٹ چھانٹ کرنے والے دوسرے ملکوں میں جرمنی شامل ہے جو ان ویب سائٹس پر پابندیاں عائد کرتا ہے جو نازیوں کو مثبت انداز میں پیش کرتی ہیں۔ امریکہ کی جن تنصیبات کے کمپیوٹروں تک عام لوگوں کی رسائی ہو سکتی ہے ان پر فحش مواد کی اشاعت اکثر اوقات ممنوع ہوتی ہے۔
البتہ چین میں انٹرنیٹ پر زیادہ پابندیاں لاگو ہیں۔ وہاں سماجی میڈیا سائٹس مثلاً فیس بک، ٹوئٹر اور وی او اے سمیت نیوز کی بہت سی غیر ملکی ویب سائٹس پر پابندی عائد ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی طور پر حساس واقعات مثلاً 20 سال قبل جمہوریت نواز پر تشدد مظاہروں پر حکومت کی پکڑ دھکڑ جیسے مواد کی اشاعت کی بھی ممانعت ہے۔

چین کا یہ بیان اس کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا جب گوگل نے یہ کہا کہ چین میں گوگل کی ویب سائٹس پر جانے والے چینی شہریوں کو خود بخود ہانگ کانگ کی ویب سائٹ کی طرف ری ڈائریکٹ کر دیا جائے گا۔

گوگل پر جانے والے چینی صارفین کو نیو ہوم ٹو گوگل چائنا، کی تحریر والا ایک بینر ہانگ کانگ میں گوگل کی ویب سائٹ پر ری ڈائریکٹ کرتا ہے۔

اگرچہ ہانگ کانگ کی ویب سائٹ غیر سنسر شدہ ہے، تاہم چین میں رہنے والے جو لوگ انٹر نیٹ استعمال کر رہے ہیں، ان کے لیے چین کے فلٹرنگ کے نظام حساس مواد کو مسلسل بلاک کر رہے ہیں۔

دن کے شروع کے حصے میں چینی کابینہ نے گوگل پر اپنی سرچ سروسز کی فلٹرنگ کے تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔

بیان میں گوگل کے فیصلے کو مکمل طور پر غلط قرار دیا گیا اور گوگل کے رویے کو ’غیر معقول‘ کہتے ہوئے اس پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔

گوگل کا یہ اقدام اس وعدے کی تکمیل ہے جو کمپنی نے دو ماہ سے زیادہ عرصہ قبل اس وقت کیا تھا جب اس نے پہلی بار اعلان کیا تھا کہ وہ چین میں ہیکنگ اور سنسرشپ پر خدشات کی وجہ سے وہاں اپنی سروسز ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔

بیجنگ میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والی ایک خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ ممکن ہے کہ اس اقدام سے گوگل استعمال کرنے والوں کو وقتی طور پر تو کچھ مسائل پیش آئیں، مثلاً جی میل، گوگل ڈاکومنٹس، گوگل کیلنڈر کے استعمال میں، لیکن یہ خدمات آخر کاردوسری کمپنیاں مثلاً مقامی چینی کمپنیاں فراہم کرنا شروع کر دیں گی۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ گوگل کو اس کے فیصلے پر مورد الزام نہیں ٹھہراتیں کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ گوگل کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہٴ کار نہیں تھا۔