|
صدر جو بائیڈن نے صدراتی دوڑ سے دست برداری کے بعد نومبر میں ہونے والے انتخابات کے لیے اپنی نائب کاملا ہیرس کی بطور امیدوار نامزدگی کی حمایت کی ہے۔ اگر نائب صدر کاملا ہیرس یہ نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہ کئی اعتبار سے ایک تاریخی موقع ہو گا۔
اگر کاملا نامزدگی حاصل کر لیتی ہیں تو وہ امریکہ کی صدارتی امیدوار بننے والی پہلی سیاہ فام خاتون ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایسی پہلی صدارتی امیدوار ہوں گی جو خاندانی اعتبار سے جنوبی ایشیا سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔
کاملا تین برس تک صدر بائیڈن کے نائب کے طور پر ذمے داریاں ادا کر رہی ہیں اور اتوار کو صدر بائیڈن کی الیکشن سے دست برداری کے اعلان کے بعد وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی کے لیے نمایاں ترین امیدوار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔
اگرچہ کاملا ہیرس نائب صدر کی اہم ذمے داری ادا کر رہی ہیں لیکن انہیں امیدوار بننے کے لیے کئی پالیسی ایشوز پر رائے دہندگان کے دل جیتنے ہوں گے۔
ہیرس نے 2020 میں اس وقت ایک تاریخ رقم کی تھی جب وہ امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر بنی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ نائب صدر بننے والی پہلی سیاہ فام اور جنوبی ایشیائی نژاد خاتون بھی ہیں۔
کاملا ہیرس نے جب یہ ذمے داری سنبھالی تھی تو اسی وقت توقع کی جا رہی تھی کہ مستقبل میں وہی ڈیمو کریٹک پارٹی کا پرچم سنبھالیں گی اور صدارتی نامزدگی کی اگلی دعوے دار ہوں گی۔
بطور نائب صدر کاملا ہیرس نے کئی انتہائی اہم پالیسی اہداف پر کام شروع کیا جو بہت پیچیدہ مسائل سے متعلق تھے اور ان کے حصول میں بھی کاملا کو کئی دشواریاں عبور کرنا پڑیں۔
انہیں ابتدائی دنوں ہی میں امریکہ کی جنوبی سرحد سے بڑھتے ہوئے امیگریشن کے بنیادی اسباب کا حل کرنے اور شمالی تکون کہلانے والے ممالک ہنڈارس، ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا کے ساتھ بہتر ورکنگ کنڈیشنز پر کام کرنے کی ذمے داری دی گئی تھی۔
امیگریشن جیسے اہم ترین سیاسی معاملے کی ذمے داری ملنے کی وجہ سے وہ شروع ہی سے نمایاں ہو گئیں۔ 2021 میں امریکی نشریاتی ادارے 'این بی سی' کو ایک انٹرویو میں جب ان سے بار بار پوچھا گیا کہ انہوں نے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد کا دورہ کیوں نہیں کیا جب کہ وہ وسطیٰ امریکہ تو جا چکی ہیں؟ اس پر ہیرس کے جواب کو بڑے پیمانے پر نقل کیا گیا تھا۔
ہیرس نے اس کا جواب دیا تھا کہ ’’اور میں کبھی یورپ بھی نہیں گئی۔ اور میرا مطلب ہے، میں نہیں سمجھ پا رہی کہ آپ یہ پوچھ کر ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
کاملا ہیرس کے عملے کا یہ اصرار تھا کہ نائب صدر کو امریکہ میں سرحدوں سے ہونے والی مہاجرت کے بنیادی اسباب کا جائزہ لینے کی ذمے داری دی گئی ہے اور سرحدوں کی سیکیورٹی ان کے ذمے نہیں ہے۔
تاہم وسطی امریکہ کے دورے کے موقعے پر انہوں نے ترکِ وطن کا ارادہ رکھنے والوں کو جو پیغام دیا اس نے انہیں اس معاملے سے جوڑے رکھنے میں مدد دی۔
SEE ALSO: صدارتی انتخابی دوڑ سے بائیڈن کی دستبرداری پر عالمی رہنما کیا کہتے ہیں؟گوئٹے مالا کے صدر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ’’مت آئیے۔ آپ کو واپس بھیج دیا جائے گا۔‘‘
ہیرس کو بائیڈن حکومت کی جانب سے ووٹنگ رائٹس سے متعلق قانون سازی اور جامع انتخابی اصلاحات کی نگرانی کی ذمے داری بھی دی گئی تھی۔
سینیٹ میں ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن پارٹی میں تقریباً برابر کی نمائندگی کی وجہ سے ان امور پر پیش کیے گئے بل منظور نہیں ہو پاتے تھے۔ صدر بائیڈن کی جانب سے مہم کے باجود جنوری 2022 میں ان امور پر قانون سازی میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
کاملا ہیرس کے حامیوں کے مطابق اسقاطِ حمل اور گن سیفٹی جیسے ایشوز پر آواز اٹھانے کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ کی سپریم کورٹ کی جانب سے جون 2022 میں اسقاطِ حمل کے حق کو حاصل آئینی تحفظ ختم ہونے کے بعد کاملا ہیرس نے اس معاملے کو اپنی تقاریر اور مہم سے متعلق جاری ہونے والے پیغامات کے کلیدی نکات میں شامل کر لیا تھا۔
اس فیصلے کے دو سال مکمل ہونے پر میری لینڈ میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ہیرس نے کہا تھا کہ ’’یہ آزادی کی لڑائی ہے: خواتین کے اس بنیادی حق کی کہ وہ اپنے جسم کے بارے میں کیا فیصلہ کرنا چاہتی ہیں اور حکومت اس بارے میں انہیں کچھ نہ بتائے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔‘‘
SEE ALSO: امریکی قانون ساز بائیڈن کی انتخابی دوڑ سے باہر ہونے پر حیراناگلی امیدوار
صدر بائیڈن کی بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے کاملا ہیرس کو وائٹ ہاؤس میں بہت اہمیت حاصل ہوئی۔ صدر بائیڈن رواں برس نومبر میں 82 برس کے ہو جائیں گے اور رائے عامہ کے جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ زیادہ تر امریکیوں کے خیال میں ایک اور مدت کے لیے صدر کی عمر بہت زیادہ ہے۔
صدر بائیڈن کو 27 جون کے صدارتی مباحثے میں پیش آنے والی دشواریوں کے بعد بعض ڈیمو کریٹک قانون سازوں اور ڈونرز نے ان پر صدارتی دوڑ سے دست برداری کے لیے زور دینا شروع کر دیا تھا۔
صدارتی مباحثے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد بائیڈن انتخاب سے دست بردار ہوئے ہیں تو انہوں نے ساتھ ہی نامزدگی کے لیے کاملا ہیرس کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔
ہیرس نے بھی اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ وہ نامزدگی حاصل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
رواں ماہ ایک پریس کانفرنس میں بائیڈن سے جب پوچھا گیا تھا کہ ان کے نزدیک کاملا ہیرس اعلی ترین عہدے کے لیے کیا اہلیت رکھتی ہیں۔
اس پر صدر بائیڈن نے جواب دیا تھا کہ ’’سب سے پہلے، انہوں نے جس انداز میں خواتین کی آزادی کے معاملے کو دیکھا ہے۔ دوسرا انہوں نے اپنے سامنے آنے والے ہر معاملے سے جس طرح نمٹا ہے۔ وہ ایک انتہائی کامیاب پراسیکیوٹر ہیں۔ وہ صدر بننے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ان کا انتخاب کیا تھا۔‘‘
بائیڈن کی دست برداری سے قبل کاملا ہیرس نے بطور صدارتی امیدوار ان کی بھرپور حمایت کی تھی۔
رواں ماہ نارتھ کیرولائنا میں ایک انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہمیں اپنے صدر جو بائیڈن کے بارے میں ایک بات صاف صاف معلوم ہے کہ وہ لڑنے والے ہیں۔ جب آپ کو گرایا جاتا ہے تو آپ کو اٹھنا پڑتا ہے۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
ووٹرز کی نظر میں
اپنی نائب صدارت کے دور میں ہیرس کو رائے عامہ کے جائزوں میں زیادہ پسندیدگی نہیں ملی۔
جون 2023 میں 'این بی سی' پول میں ان کی نیٹ ریٹنگ منفی (17-) تھی۔ یہ 1989 میں نائب صدر کے لیے ہونے والے جائزوں میں سب سے کم ریٹنگ تھی۔
جون میں 'پیو ریسرچ سینٹر' کی جانب سے پہلے صدارتی مباحثے کے بعد کیے گئے پول میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 10 میں سے چھ امریکی (59 فی صد) ہیرس کے حامی نہیں ہیں۔ 36 فی صد نے ان کی حمایت کا اظہار کیا تھا اور تین فی صد کا کہنا تھا کہ وہ انہیں جانتے ہی نہیں۔
صدارتی مباحثے کی کارکردگی کی بنیاد پر جب صدر بائیڈن کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات پر سوال اٹھایا جانے لگا تو زیادہ تر ڈیمو کریٹس نے اسی وقت سے بائیڈن کے جانشین کے طور پر ہیرس کی جانب دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
جولائی میں دی اکنامسٹ اور یو گورنمنٹ کے رائے عامہ کے جائزے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 73 فی صد ڈیمو کریٹک ووٹرز نے بائیڈن کے متبادل کے طور پر کاملا کی ’کسی حد تک‘ یا ’مکمل‘ حمایت کا اظہار کیا ہے۔
نائب صدارت تک کا سفر
نائب صدر بننے سے قبل ہی کاملا ہیرس کئی سیاسی کامیابیاں حاصل کر چکی تھیں۔
ان کے والد کا تعلق جمیکا سے ہے اور والدہ ہندوستان سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ کیلی فورنیا کی پہلی خاتون اٹارنی جنرل بنیں۔ 2016 میں جب وہ کیلی فورنیا سے سینیٹ کی رکن منتخب ہوئی تھیں وہ یہ کامیابی حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں جو جنوبی ایشائی ورثہ بھی رکھتی تھیں۔
SEE ALSO: مشی گن: ٹرمپ کی قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد پہلی انتخابی ریلیسینیٹ میں اپنے دو برسوں کے دوران وہ 2020 کی صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں شامل ہوئیں۔ 2019 میں ان کی مہم کا آغاز بہت زور دار رہا اور کیلی فورنیا میں ان کی پہلی ریلی میں لگ بھگ 20 ہزار افراد شریک ہوئے لیکن رائے عامہ کے جائزوں میں ان کے نمبرز تیزی سے نیچے آتے گئے۔ اس برس دسمبر تک وہ نامزدگی کے لیے مہم سے دست بردار ہو گئی تھیں۔
جب بائیڈن نے مارچ 2020 میں اعلان کیا تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس میں اپنے نائب کے لیے کسی خاتون کا انتخاب کریں گے تو اس وقت کاملا ہیرس ہی سب سے مضبوط امیدوار سمجھی جاتی تھیں۔
ہیرس نے واشنگٹن کی ہاورڈ یونیورسٹی سے انڈر گریجویٹ ڈگری حاصل کی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ سیاہ فاموں کی درس گاہ رہی ہے۔ انہوں نے کیلی فورنیا یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد ایک کاؤنٹی کی ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس سے منسلک ہو گئیں۔
کیلی فورنیا کا اٹارنی جنرل منتخب ہونے سے قبل وہ دو بار سان فرانسسکو کی ڈسٹرکٹ اٹارنی رہیں۔ ناقد کیلی فورنیا میں ان کی کاردگی پر سوال اٹھاتے ہیں کہ ان کے دور میں فوجداری قوانین میں اصلاحات اور پولیس کی جانب سے شوٹنگ کی واقعات کی تحقیقات میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
تاہم سینیٹ میں سماعتوں کے دوران کاملا ہیرس جارحانہ سوالات کرنے کی شناخت رکھتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں جج بریٹ کینونو اور اٹارنی جنرل ولیم بار کی نامزدگی کے لیے ہونے والی سماعتوں میں انہوں نے امیدواروں سے کڑے سوالات کیے تھے۔
یہ خبر وائس آف امریکہ کے لیے میگن ڈوزر کی رپورٹ سے ماخوذ ہے۔