افغان صدر اشرف غنی نے افغانستان تنازع کے حل کے لیے ایک 7 نکاتی امن منصوبہ تجویز کیا ہے تاکہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اس مجوزہ امن منصوبے میں طالبان کے ساتھ ممکنہ بات چیت، جنگ بندی اور اس کی مجوزہ شرائط طے اور کئی دیگر امور بھی شامل ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صادق صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اشرف غنی کے منصوبے کو ایک جامع امن منصوبہ قراردیتے ہوئے اسے شورش زدہ ملک میں قیام امن کے حوالے سے اہم قرار دیا ہے۔
ان کے بقول اس سات نکاتی منصوبے میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست بات چیت کے ساتھ ساتھ امریکہ نیٹو اور پاکستان کے ساتھ بات چیت کی تجویز شامل ہے۔
صدیقی نے کہا کہ صدر اشرف غنی کا مجوزہ امن منصوبہ کم مدت میں افغانستان میں امن بحال کرنے کا طریقہ ہے جس میں طالبان کے ساتھ براہ راست ممکنہ بات چیت، جنگ بندی اور اس کی مجوزہ شرائط بھی شامل ہیں۔
افغان صدر کے 7 نکاتی مجوزہ منصوبے میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ممکنہ براہ راست بات چیت کے ساتھ ساتھ امریکہ، مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو اور پاکستان کے ساتھ بات چیت کی تجویز شامل ہے۔
صدر اشرف غنی کے مجوزہ امن منصوبے میں افغانستان میں قیام امن کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اتفاق رائے قائم کرنے کے ساتھ ساتھ، افغانستان میں قومی سطح پر اداروں کو مضبوط بنانے اور عوام کی مشکلات کو مقامی سطح پر حل کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔
صدر اشرف غنی کا امن منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان میں قیام امن کی نئی کوششوں کے سلسلے میں افغان مفاہمت کے لیے خصوصی امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی ہے۔
خلیل زاد نے اتوار کو کابل میں افغان قیادت سے ملاقات کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ سال سے جاری افغان امن مذاکرات معطل کرنے کے بعد امریکی سفارت کار کا کابل کا یہ پہلا دور ہے۔
خلیل زاد افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک بار پھر متحرک ہو گئے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے برسلز میں یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کاروں اور روس، چین اور پاکستان کے نمائندوں سے ملاقات کی، جس کا محور افغانستان میں قیام امن کی نئی کوشش تھیں۔
افغان تنازع کے حل کے لیے مختلف سطح پر ہونے والی ان نئی کوششوں کو تجزیہ کار اہم قرار دے رہے ہیں۔
بین لاقوامی امور کے ماہر اور اسلام آباد کی قائداعظم سے منسلک ڈاکٹر عائشہ یونس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا افغانستان میں قیام امن کی تازہ کوششوں کے تناظر میں صدر اشرف غنی کا مجوزہ امن منصوبہ قیام امن کے حصول کی نئی کوشش کا مظہر ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے طالبان، افغان حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان افغانستان کے سیاسی مستقبل پر اتفاق رائے کے لیے بات چیت ضروری ہے۔
تاہم افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کسی بھی امن منصوبے کی کامیابی کا دارو مدار اس پر ہے کہ آیا تمام اسٹیک ہولڈرز کا اس پر اتفاق ہے یا نہیں۔
رحیم اللہ کا مزید کہنا ہے کہ اگر اشرف غنی افغانستان کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد اگر اس امن منصوبے کا اعلان کرتے تو وہ زیادہ موثر ہوتا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ صدر اشرف غنی کا مجوزہ امن منصوبہ بہت مفصل ہے، تاہم طالبان قبل ازیں متعدد بار کابل حکومت کی براہ راست بات چیت کی پیش کش مسترد کر چکے ہیں۔
رحیم اللہ کا کہنا ہے اگر طالبان نے اس منصوبے کو بھی مسترد کر دیا تو ا س پر عمل دارآمد، ان کے بقول بہت مشکل ہو گا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کی نئی کوششیں اگرچہ خوش آئند ہیں تاہم ان کے بقول، انہیں مربوط کرنا ضروری ہے۔ تاہم ان کے بقول ان کوششوں سے پہلے تمام متعلقہ فریقین کو اعتماد میں لے کر اگر کوئی منصوبہ بنایا جائے تو اس صورت میں وہ امن منصوبہ افغانستان میں قیام امن کے لیے موثر ہو سکتا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی کا مجوزہ امن منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کے صدر دونلڈٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں گزشتہ سال سے جاری امن مذکرات کابل میں ایک خوش کش حملے کے دوران ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد منسوخ کر دیے تھے، جب امن سمجھوتے میں صرف دستخطوں کا مرحلہ باقی رہ گیا تھا۔