پاکستان کے ایک بڑے نشریاتی ادارے 'جیو نیوز' کے لاپتا ہونے والے رپورٹر علی عمران سید 22 گھنٹے بعد کراچی میں گھر پہنچ گئے ہیں۔
'جیو نیوز' کی رپورٹ کے مطابق علی عمران سید نے 22 گھنٹے لاپتا رہنے کے بعد اپنی اہلیہ سے رابطہ کیا ہے کہ وہ اپنی والدہ کے گھر پہنچ گئے ہیں۔
جیو نیوز کے رپورٹر علی عمران سید گزشتہ روز کراچی میں گھر کے قریب سے لاپتا ہو گئے تھے۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔
علی عمران سید نے چند روز قبل ہی 19 اکتوبر کو کیپٹن صفدر کی کراچی کے ایک نجی ہوٹل سے گرفتاری کی فوٹیج حاصل کر کے اس پر خبر دی تھی۔
اس فوٹیج میں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری میں مختلف سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی مبینہ موجودگی واضح ہو رہی تھی۔ جب کہ مقامی میڈیا کے مطابق سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں کی فون پر کسی کو معلومات فراہم کرنا بھی نظر آ رہا تھا۔
علی عمران سید کے بھائی طالب سید کے مطابق ان کی گمشدگی کی اطلاع متعلقہ پولیس اسٹیشن سچل تھانے میں کر دی گئی تھی۔
علی عمران سید کے مبینہ اغوا پر چینل انتظامیہ، مختلف صحافتی تنظیموں، پریس کلب اور سیاسی جماعتوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ علی عمران سید کو فوری طور پر پر بحفاظت بازیاب کرایا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے بیان میں کہا تھا کہ جیو کے رپورٹر علی عمران سید کی گمشدگی انتہائی تشویش ناک ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان کے مطابق اگر صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے شبہات درست ہیں تو پاکستان ایک بنانا ریپبلک میں بدل چکا ہے۔ پہلے ہی پاکستان دنیا میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ جب کہ موجودہ حکومت پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے پہلے ہی تنقید کی زد میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر علی عمران سید کو بازیاب نہیں کرایا گیا تو معاملہ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی میں اٹھایا جائے گا۔
ادھر سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے جیو کے رپورٹر کی گمشدگی کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ کی پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) مشتاق مہر کو ان کی فوری بازیابی کا حکم دیا تھا۔
وزیر اعلیٰ ہاوس کے ترجمان کے مطابق سید مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ صحافیوں کے خلاف اس قسم کی حرکتیں ناقابلِ برداشت ہیں اور اس بات کا سراغ لگا کر بتایا جائے کہ علی عمران سید کہاں گئے؟ انہیں کس نے اٹھایا؟ اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
اغوا کا مقدمہ درج
دوسری طرف پولیس نے علی عمران سید کے اغوا پر ایف آئی آر درج کر لی تھی۔
علی عمران سید کے بھائی کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق وہ شام سات بجے کے قریب گھر کے قریب واقع بیکری سے سامان لینے پیدل ہی گئے تھے۔ اس دوران ان کا موبائل فون گھر پر ہی رکھا ہوا تھا۔ لیکن کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی وہ گھر واپس نہ آئے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کا رابطہ ہو سکا۔
ایف آئی آر کے مطابق اہلِ خانہ کا شبہ ہے کہ علی عمران سید کو نا معلوم وجوہات پر نا معلوم افراد اغوا کر کے لے گئے ہیں۔
@geonews_urdu correspondent Ali Imran Sayed’s wife confirms that he’s been missing for hrs now, after he went to bakery nearby on foot which’s just half an hour away.#BringBackAliImranSyed pic.twitter.com/hRcblcNEah
— Imran Munawar (@Imran_Munawar99) October 23, 2020
جیو نیوز کے رپورٹر علی عمران سید کے اچانک لاپتا ہونے پر کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ لاپتا صحافی کی جلد بازیابی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
کے یو جے نے سندھ حکومت، وفاق اور تمام متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی فوری تحقیقات کرائی جائیں۔
کے یو جے کا کہنا تھا کہ اگر کسی ادارے کو کسی معاملے کی تفتیش کرنی ہے تو اس کا قانونی طریقۂ کار موجود ہے۔ لیکن اس طرح سے صحافیوں کی گمشدگی کے واقعات بہت تشویش ناک اور ناقابل قبول ہیں۔
جیو نیوز سے ہی وابستہ صحافی حامد میر نے کہا تھا کہ علی عمران سید کا کراچی میں پراسرار طور پر لاپتا ہونا ملک بھر کی صحافی برادری کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
جیو نیوز کے سینئر رپورٹر علی عمران سید کا کراچی میں پراسرار طور پر لاپتہ ہونا ملک بھر کی صحافی برادری کے لئے تشویش کا باعث ہے علی عمران سید نے چند دن قبل کیپٹن صفدر کی آواری ہوٹل کراچی سے گرفتاری کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی سٹوری بریک کی تھی لاپتہ صحافی کو جلد از جلد بازیاب کیا جائے pic.twitter.com/Gcrcy35VTy
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) October 24, 2020
اینکر اور صحافی نسیم زہرہ اور کامران خان نے بھی علی عمران کی گمشدگی کو دھچکہ قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ پولیس علی عمران کو بلا تاخیر فوری بازیاب کرے اور اس خوفناک واقعے کے بارے میں سندھ حکومت اپنی خاموشی توڑے۔
Disappearance of Syed Ali Imran an outstanding and very hardworking Geo News reporter is a matter of extreme concern and shock. The police should recover him without further delay and the Sindh Govt must break its silence on this horrific incident. pic.twitter.com/oC2BZUHgzv
— Kamran Khan (@AajKamranKhan) October 24, 2020
'ایمنسٹی انٹرنیشنل' سمیت انسانی حقوق کے دیگر اداروں نے علی عمران سید کے مبینہ اغوا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی تھی اور ان کی فوری اور بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ انہیں ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
Pakistan: Ali Imran Syed, a reporter for Geo News, has been missing from Karachi since yesterday and feared to have been subject to an enforced disappearance for his reporting. The authorities must establish his whereabouts immediately. #JournalismIsNotACrime #EndDisappearances
— Amnesty International South Asia (@amnestysasia) October 24, 2020
'انسانی حقوق کمیشن پاکستان' نے بھی علی عمران سید کو بازیاب کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کا کہنا تھا کہ ملک میں صحافیوں کی گمشدگیاں معمول بنتی جا رہی ہے۔
HRCP demands the immediate release of Ali Imran Syed, a correspondent for @geonews_urdu. #Journalismisnotacrime
— Human Rights Commission of Pakistan (@HRCP87) October 24, 2020
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اور پولیس جیو نیوز کے رپورٹر علی عمران سید کی بازیابی کے لیے بھرپور کاوش اور تمام وسائل بروئے کار لائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔
سندھ حکومت اور پولیس جیو نیوز کے رپورٹر علی عمران کی بازیابی کیلئے بھرپور کاوش اور تمام وسائل بروئے کار لائے۔اس ضمن میں تمام متعلقہ وفاقی اداروں کو سندھ حکومت سے تعاون کی ہدایات کردی گئی ہیں۔صحافیوں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔
— Senator Shibli Faraz (@shiblifaraz) October 24, 2020
وزیرِ اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کا بھی واقعے سے متعلق ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ وفاقی سیکریٹری داخلہ نے آئی جی سندھ سے رابطہ کرکے وفاق کی جانب سے ہر طرح کے تعاون کی پیش کش کی ہے۔
Federal Govt has taken notice of disappearance of journalist #AliImran Sec Int has spoken with IG Sindh for early recovery of the journalist and offered support/assistance of all federal agencies in this case & general safety of journalists in Sindh
— Mirza Shahzad Akbar (@ShazadAkbar) October 24, 2020
جیو نیوز کراچی کے بیورو چیف فہیم صدیقی نے کہا تھا کہ واقعے کو کئی گھنٹے سے زائد گزرنےکے باوجود علی عمران سید کی بازیابی ممکن نہیں ہو سکی۔
انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہیں۔