اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال، یونیسیف کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے 2018 خاص چیلنجوں کا سال تھا، جس دوران تشدد کی لہر میں اضافہ آیا، خشک سالی بڑھی، کھانے کی اشیا کی دستیابی میں غیر معمولی حد تک کمی واقع ہوئی، غربت میں اضافہ آیا، سماجی خدمات کے نظام میں ابتری کے باعث بچوں کی اموات میں انتہائی اضافہ دیکھا گیا۔
یہ بات افغانستان میں یونیسیف کے ذرائع ابلاغ سے متعلق سربراہ، الشن پارکر نے منگل کو جنیوا میں اخباری بریفنگ کے دوران کہی۔
اُنھوں نے بتایا کہ افغانستان میں 60 لاکھ افراد کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ضرورت ہے، جس میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے۔
یونیسیف کے اہل کار نے بتایا کہ 30 لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جاپاتے، جس میں سے 60 فی صد تعداد لڑکیوں کی ہے۔
ادھر بچوں میں غذائیت کی شدید کمی لاحق ہے، جب کہ باقی دنیا کی سطح پر پانچ لاکھ بچوں کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہی ہیں۔
پارکر نے کہا کہ افغانستان میں آج بھی تقریباً 35 فی صد شادیاں کم عمری میں ہوتی ہیں؛ جب کہ مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے صرف 46 فی صد آبادی کو لگائے گئے ہیں، جب کہ کچھ اضلاع میں یہ اوسط صرف آٹھ فی صد شرح پر ہے۔
یونیسیف کے اعلیٰ اہلکار نے بتایا ہے کہ افغانستان میں تعلیم، صحت، دماغی اور جسمانی نشو نما کے حوالے سے بچوں کی زندگی اور مستقبل داؤ پہ لگا ہوا ہے۔
الشن پارکر نے مزید کہا کہ تشدد اور خونریزی روز کا معمول ہے۔
اُنھوں نے ایک افغان باپ کا قصہ سنایا جنھوں نے اپنے چار سالہ بچے سے پوچھا کہ ’’کام کے بعد شام کو آپ کے لیے کیا لاؤں‘‘۔ بچے نے آئس کریم، چاکلیٹ، کھلونے یا کسی گیم کی فرمائش نہیں کی۔ بس یہ کہا کہ ’’میں یہ چاہتا ہوں کی آپ خیریت سے گھر واپس آ جائیں‘‘۔ اور آج کل ایک عام افغان خاندان اور بچے کی یہی ایک خواہش ہے۔
سال 2018 کی تین چوتھائیوں کے دوران اب تک 5000 بچے ہلاک یا اپاہج ہو چکے ہیں۔