پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ افغانستان اور امریکہ کے بعض حلقوں کی طرف سے الزام تراشیاں انسداد دہشت گردی کی پاکستانی کوششوں کو متاثر کر رہی ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" کی طرف سے جاری بیان کے مطابق جنرل باجوہ نے یہ بات افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن سے گفتگو میں کہی۔
جنرل نکولسن نے پیر کو راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر "جی ایچ کیو" میں جنرل باجوہ سے ملاقات کی تھی۔
بیان کے مطابق جنرل باجوہ نے ان الزام تراشیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ یہ خیال آرائی (الزام تراشی) ایک ایسے وقت کی جا رہی ہے جب امریکہ (خطے سے متعلق) اپنی پالیسی کا جائزہ لے رہا ہے۔
تاہم ان کے بقول اس "اشتعال انگیزی" کے باوجود پاکستان اپنا مثبت کردار جاری رکھے گا کیونکہ دہشت گردی کو شکست دینا اس کے اپنے قومی مفاد میں ہے۔
جنرل باجوہ کی طرف سے یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے ہی امریکہ نے اتحادی اعانتی فنڈ کی مد میں پاکستان کو پانچ کروڑ ڈالرز کی ادائیگی یہ کہتے ہوئے روک دی تھی کہ پاکستان مبینہ طور پر اپنی سرزمین پر موجود افغان شدت پسند گروپ حقانی نیٹ ورک کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کر رہا۔
اس رقم کی ادائیگی کے لیے امریکی وزیردفاع کی طرف سے پاکستانی کارروائیوں کی تصدیق ضروری ہوتی ہے جو انھوں نے نہیں کی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ افغانستان اور خطے سے متعلق اپنی نئی پالیسی کا اعلان بھی جلد کرنے والی ہے۔
پاکستان یہ کہتا رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کر رہا ہے جن میں سیکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک اور ان کی پناہ گاہیں تباہ کی جاچکی ہیں جب کہ بچ جانے والے دہشت گرد سرحد پار فرار ہو چکے ہیں جن کے خلاف افغانستان کو کارروائی کرنا ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے جنرل باجوہ سے ہونے والی ملاقات میں پاکستانی فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور پاکستانی عوام کے عزم کو سراہا۔
دونوں عہدیداروں نے خطے میں امن و استحکام کے لیے رابطوں اور تعاون کو جاری رکھنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔
مبصرین یہ کہتے ائے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے، خطے خصوصاً افغانستان میں پائیدار امن کے لیے پاکستان اور افغانستان کے مابین اعتماد اور تعاون کا فروغ کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔