غزہ میں جنگ بندی کے بعد کئی فلسطینی صحافیوں پر یہ انکشاف ہوا کہ ان کے واٹس ایپ کے اکاؤنٹ بند ہو چکے ہیں اور وہ پیغام رسانی کے اس اہم ذریعے تک رسائی نہیں حاصل کر پا رہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق غزہ میں کام کرنے والے 17 صحافیوں نے ایجنسی کو تصدیق کی کہ ان کے واٹس ایپ اکاؤنٹ بند کر دیے گئے ہیں۔ ایجنسی کے مطابق پچھلے ہفتے تک صرف الجزیرہ کے ساتھ کام کرنے والے 4 صحافیوں نے تصدیق کی کہ ان کے اکاؤنٹ دوبارہ کھل چکے ہیں۔
اس واقعے کے بعد فلسطینی صارفین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ پیغام رسانی کے ذریعے واٹس ایپ کی مالک کمپنی، فیس بک کی جانب سے انہیں نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ جب کہ کچھ صارفین فیس بک کی جانب سے فلسطینیوں کی آوازوں کے خلاف سینسرشپ کا الزام بھی لگا رہے ہیں۔
اے پی کے مطابق ان صحافیوں میں سے 12 صحافیوں نے اے پی کو بتایا کہ وہ حماس کے فوجی آپریشنز کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے ایک واٹس ایپ گروپ کا حصہ تھے۔
SEE ALSO: واشنگٹن میں فلسطینیوں کے حق میں ریلی، اسرائیل کی امداد بند کرنے کا مطالبہیاد رہے کہ فلسطین میں غزہ کی پٹی پر حماس کی حکمرانی ہے اور اس گروپ کو اسرائیل اور امریکہ دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہیں۔ واٹس ایپ کی مالک کمپنی فیس بک کا ہیڈکوارٹر امریکہ میں واقع ہے۔
اے پی کے مطابق ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکا کہ ان صحافیوں کو کیا اس گروپ میں شمولیت کی وجہ سے واٹس ایپ سے بین کیا گیا ہے۔
اے پی کے مطابق غزہ میں وزارت صحت بھی ایک واٹس ایپ گروپ چلاتی ہے۔ اس گروپ میں 80 سے زائد افراد شامل ہیں جن میں سے بیشتر صحافی ہیں۔ واٹس ایپ کی جانب سے یہ گروپ بلاک نہیں کیا گیا ہے۔
غزہ میں فری لانس صحافی کے طور پر کام کرنے والے حسن صلیح نے اے پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے خیال میں ان کا واٹس ایپ نمبر اس لیے بلاک کیا گیا ہے کیونکہ وہ حماس کے ایک گروپ میں شامل تھے۔
بقول ان کے اس کی وجہ سے ان کے کام پر اثر پڑا ہے کیونکہ بہت سے اہم ذرائع سے ان کی گفتگو ضائع ہو گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
الجزیرہ کے غزہ میں سینئر نمائندے وائل الدادوہ نے اے پی کو بتایا کہ ان کا واٹس ایپ کا نمبر کچھ عرصے کے لیے بلاک رہا۔ ان کے بقول صحافی حماس کے واٹس ایپ گروپوں میں شمولیت صحافتی ذمہ داریوں کے لیے ضروری معلومات تک رسائی کے لیے کرتے ہیں۔
واٹس ایپ کے ایک ترجمان نے اے پی کو بتایا کہ کمپنی ایسے اکاؤنٹس پر پابندی لگاتی ہے جو اس کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ترجمان کے مطابق اس کا مقصد متعلقہ قوانین کا نفاذ اور کسی ممکنہ خطرے سے حفاظت ہے۔
کمپنی کے مطابق وہ مختلف میڈیا اداروں سے اس سلسلے میں بات چیت کر رہی ہے تاکہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر سکے۔ کمپنی نے کہا کہ اگر کہیں صحافی اس کے اقدامات سے متاثر ہوئے ہیں تو وہ ان کے اکاؤنٹس دوبارہ کھول دے گی۔
دوسری طرف انسٹاگرام پر، جو فیس بک کی ہی ملکیت ہے، ’براؤن ہسٹری‘ نامی پیج پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جب اس پیج کے ایڈمن نے فلسطین کے حق میں ایک میم شئیر کی۔
پیج کے ایڈمن نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ ان کے خیال میں ان کے پیج کو، جس کے پانچ لاکھ سے زائد فالورز تھے، بقول ان کے فلسطینیوں کے حق میں پوسٹ شئیر کرنے کے بعد بلاک کیا گیا تھا۔
پیر کے روز تک یہ پیج دوبارہ بحال ہو چکا تھا۔ پیج کے ایڈمن کے مطابق انہیں ایک دن قبل انسٹاگرام کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ ان کے پیج پر پابندی، یا اسے دوبارہ قابل رسائی بنانے کے بارے میں انسٹاگرام نظر ثانی کر رہا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے مابین مئی کے نصف اول میں ہونے والی کشیدگی کے دوران اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سوشل میڈیا کی بڑی کمپنیوں کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں لکھی جانے والی لاکھوں پوسٹس ہٹائی گئی تھیں۔ اخبار کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ایسا مصنوعی ذہانت کے نظام میں خرابیاں پیدا ہونے کی وجہ سے ہوا۔