مدرسہ گنج تعزیرات: رد عمل سامنے نہیں آیا

گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد، شیخ امین اللہ اور گنج مدرسے کی القاعدہ، لشکر طیبہ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط سامنے آئے
مولوی امین اللہ کا مدرسہ ’جامعہ تعلیم القرآن و حدیث‘ کچھ عرصہ قبل پشاور کے وسطی علاقے گنج میں قائم کیا گیا۔ یہ مدرسہ اب گنج مدرسہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس میں سینکڑوں کی تعداد میں مقامی اور افغان طالبا و طالبات مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

گوکہ مدرسے کے مہتمم شیخ امین اللہ نے زیادہ تر وقت درس و تدریس میں گزارا ہے۔ مگر، اِسی بنیاد پر اُنھوں نے انتہا پسند مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں کے ساتھ تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔

گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد، شیخ امین اللہ اور گنج مدرسے کی القاعدہ، لشکر طیبہ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط سامنے آئے۔

چند سال قبل، شیخ امین اللہ نے مدرسے کا نام تبدیل کرکے اسے بچے اور بچیوں کو مذہبی تعلیمات کی سہولتیں فراہم کرنے کا ادارہ بنا دیا۔

اِس مدرسے میں بچے اور بچیوں کو مذہبی تعلیم دلوانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

ابھی تک شیخ امین اللہ یا اُن کے کسی قریبی ساتھی اور رشتہ دار نے اُن کے اور اُن کے مدرسے کے خلاف لگائی گئی امریکی پابندیوں کے خلاف کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔


مقامی لوگوں نے بتایا کہ شیخ امین اللہ اپنے قریبی رشتہ داروں اور ساتھیوں سمیت پچھلے کئی دِنوں سے دکھائی نہیں دیے۔ باور کیا جاتا ہے کہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو چکے ہیں۔

شیخ امین اللہ پہلی پاکستانی شخصیت اور اُن کا مدرسہ پہلا پاکستانی ادارہ ہے جس کے خلاف امریکی حکومت نے دہشت گردوں کے ساتھ رابطوں کے الزام میں باقاعدہ طور پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔