سات بڑے صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خزانہ نے روس کی جانب سےعالمی منڈیوں میں فروخت کیے جانے والے تیل کی قیمتوں کو منجمد کرنے کے لیے منصوبے پراتفاق کیا ہے۔
کسی بھی ملک کی تیل کی قیمتیں منجمد کرنے کی ایسی مثال ماضی میں موجود نہیں۔ اس اقدام کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس سرمائے کو محدود کیا جا سکے جس کو روس یوکرین کے خلاف جنگ میں لگا رہا ہے۔
روس کے تیل کے نرخ کی حد مقرر کرنےکی تجویز اس وقت سامنے آئی تھی، جب یورپی یونین دسمبر میں روس سے تیل کی خریداری پرمکمل پابندی کے نفاذ کا ارادہ کر رہی ہے۔
یورپی یونین کے اس منصوبے کے تحت بلاک میں قائم کمپنیوں پرروس کے تیل کی ترسیل کی بیمہ یا مالی اعانت کرنے پر بھی پابندی لگائی جائے گی۔
دوسری طرف امریکہ کے حکام اس تشویش کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ یورپی یونین کوروس کے تیل کی فروخت پرمکمل پابندی، انشورنس اور مالیاتی پابندیوں کی وجہ سے مزید رکاوٹ جب کہ عالمی معیشت کو کساد بازاری کی طرف لے جا سکتی ہے۔
روس کے تیل کی قیمت کی آخری حد مقرر کرنے کے جی سیون کے فیصلے کی امریکہ کی وزیرِ خزانہ جینیٹ یلین نے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں کو کم کرنے کی کوشش کے دوہرے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ایک اہم قدم آگے بڑھایا گیا ہے جب کہ اس سے روسی صدر پوٹن کی یوکرین کے خلاف جنگ کے لیے مالی معاونت کی فراہمی کو محدود کر دیا جائے گا۔
امریکہ کی وزیرِ خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ آج کی کارروائی روس کے مالی نظام کے لیے بڑا دھچکا پہنچانے میں مدد کرے گی۔ اس سے یوکرین میں بلا اشتعال جنگ شروع کرنے والے روس کی عسکری صلاحیت بھی کم ہو گی جب کہ اس کی معیشت پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ وہ آنے والے ہفتوں میں اس تجویز کو حتمی شکل دینے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی منتظر ہیں۔
خیال رہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ یورپی یونین کے 27 رکن ممالک متفقہ طور پر روس کے تیل کے لیے نرخ کو مقرر کرنے کے مجوزہ منصوبے کو منظور کریں۔
یورپی یونین کے بعض ارکان ، خاص طور پرہنگری جیسے ممالک کے لیے اس منصوبے پر عمل درآمد بے حد دشوار ہوگا کیوں کہ وہ روس کے ساتھ معاملات پر پہلے سے لگائی گئی پابندیوں پرعمل درآمد کر رہا ہے۔
توانائی کی عالمی مارکیٹ کے ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہجی سیون وزرائے خزانہ کی طرف سے جمعے کو جاری کردہ بیان میں زیادہ تفصیلات نہیں دی گئیں۔ اس منصوبے کو نافذ کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔
ماہرین کے مطابق چین اور بھارت سمیت تیل کے بہت سے بڑے صارفین کا اس منصوبے میں شرکت کا امکان نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین یہ بھی اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ ممالک جو منصوبے کے تحت مقررہ قیمت کادینے کا وعدہ کریں گے ان کے لیے بھی اس کی تعمیل مشکل ہوگی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس پرعمل درآمد کے سلسلے میں اور بھی بہت سے رکاوٹیں آئیں گی، جن دور کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔