بلاول کے تندوتیز بیانات؛ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے تحفظات اور بجٹ پر تنقید کے بعد دونوں جماعتوں کے اتحاد پر سوالیہ نشان اُٹھ گئے ہیں۔

اگرچہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے بجٹ میں سیلاب زدگان کی بحالی کے حوالے سے فنڈز مختص نہ کرنے کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے دونوں جماعتوں کے وفاقی وزرا کی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ تاہم مبصرین اسے انتظامی سے زیادہ سیاسی معاملہ سمجھتے ہیں۔

خیال رہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے چند روز قبل ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حال ہی میں پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ میں سیلاب زدگان کے لیے مناسب رقم مختص نہ کرنے پر تنقید کی تھی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ جب تک ان کے تحفظات دور نہیں کیے جاتے ان کی پارٹی بجٹ منظور نہیں ہونے دے گی۔

سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ایسے کیا سیاسی محرکات ہیں کہ بلاول بھٹو نے بجٹ کے حوالے سے کابینہ میں بات کرنے کے بجائے عوامی سطح پر تنقید کی۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات کا سال ہونے کی وجہ سے اتحادی جماعتیں ایک دوسرے پر دباؤ ڈالتی رہیں گی لیکن حکومتی اتحاد ٹوٹے گا نہیں۔

تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ جوں جوں انتخابات کا مرحلہ قریب آتا جارہا ہے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو رہی ہیں اور بلاول بھٹو کا یہ بیان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا انتخابی مرکز سندھ ہے اور وہ اپنے ووٹرز کا سامنا کرنے کے لیے سیلاب زدہ لوگوں کے مسائل حل نہ ہونے کی ذمے داری وفاقی حکومت پر ڈالنا چاہتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انتخابی سال میں اتحادی جماعتیں کبھی دباؤ بڑھائیں گی تو کبھی کم کریں گی لیکن اتحاد کا یہ سلسلہ ٹوٹے گا نہیں چلتا رہے گا۔


مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں چاہتے ہیں کہ بڑی جماعت بن کے سامنے آئیں اور جوں جوں عمران خان کا دباؤ کم ہوگا، موجودہ اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتی جائیں گی۔

وہ کہتے ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے کمزور ہونے سے مسلم لیگ (ن) کو فائدہ ہوا ہے اور یہ پیپلز پارٹی کے لیے پریشانی کا سبب ہے۔

'اصل معاملہ بجٹ نہیں سیاسی ہے'

تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو کا بیان اگرچہ سیلاب زدگان کے فنڈز کے اجرا سے متعلق ہے لیکن اصل معاملہ بجٹ کا نہیں بلکہ سیاسی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب میں جہانگیر ترین کی قیادت میں پی ٹی آئی کے ناراض رہنماؤں پر مشتمل نئی سیاسی جماعت کا قیام اور پھر اس کے مسلم لیگ (ن) کی طرف جھکاؤ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسمنٹ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس عمل سے آصف علی زرداری نالاں ہیں کیوں کہ پیپلز پارٹی چاہتی تھی کہ پی ٹی آئی کے ناراض رہنماؤں کو شامل کرکے پنجاب میں اپنی ساکھ کو بہتر بنائے لیکن استحکام پاکستان پارٹی کے قیام سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

سلیم بخاری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی روایت رہی ہے کہ وہ سیاسی اتحاد تو کرتی ہے لیکن انتخابی اتحاد نہیں کرتی ہے اور موجودہ اتحاد کے بارے میں بھی بلاول بھٹو کہتے رہے ہیں کہ یہ حکومتی اتحاد ہے انتخابی اتحاد نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاملہ صرف بجٹ کا ہوتا تو بلاول بھٹو وفاقی کابینہ میں یا پارلیمنٹ میں اس پر بات کرتے لیکن یہ معاملہ چوں کہ سیاسی ہے اس لیے اسے عوامی جلسے میں اٹھایا گیا۔

سلیم بخاری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں پیپلز پارٹی کے بجائے جہانگیر ترین سے اتحاد کرے گی اور ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ حل ہونے کے بجائے مزید کشیدگی کی طرف جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد پر بھی غور ہوا لیکن اگر اس پر عمل بھی کیا جائے تو اس کا انہیں فائدہ نہیں پہنچے گا۔


'جہانگیر ترین جس جماعت سے اتحاد کریں گے وہی حکومت بنائے گی'

اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد طاہر نعیم ملک نے کہا کہ انتخابات کا سال ہونے کے سبب پیپلز پارٹی کی زیادہ توجہ سندھ اور مسلم لیگ (ن) کا مرکز پنجاب ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) ترقیاتی بجٹ کا زیادہ حصہ پنجاب میں صرف کرنا چاہتی ہے کیوں کہ انتخابات کا اصل میدان پنجاب میں سجنا ہے جس بنا پر پیپلز پارٹی میں مایوسی پائی جاتی ہے اور دونوں جماعتوں کے تعلقات میں تعطل پیدا ہوا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ مقابلے کا رجحان ہے اور معاملہ یہاں رکے گا نہیں کیوں کہ ایک جماعت پنجاب پر اجارہ داری اور دوسری مناسب حصہ چاہتی ہے۔

طاہر ملک کہتے ہیں کہ ایسے میں جہانگیر ترین کا پی ٹی آئی کے ناراض اراکین پر مشتمل جماعت آئی پی پی بنانا بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیے قابلِ تشویش ہے کیوں کہ دونوں جماعتیں اپنے حلقوں میں ووٹ رکھنے والے پی ٹی آئی کے علیحدہ ہونے والے رہنماؤں کو شامل کرنا چاہتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین جس جماعت کے ساتھ اتحاد کریں گے وہ اشارہ ہوگا کہ عام انتخابات کے نتیجے میں کون سی جماعت حکومت بنا رہی ہے۔